کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 4
وتدریس کی کون سی نوعیت اربابِ ابلاغ کے ہاں مطلوب ومعتبر قرار پائے گی…؟
یہ ہے ٹی وی پر تبلیغ دین کے موجودہ داعیہ کا پس منظر جس کی راہ میں اکثر وبیشتر اسلام کی رو سے مسئلہ تصویر حائل ہوتا رہا ہے۔ محتاط اور جید علما ے کرام اس بنا پر ہمیشہ ٹی وی پر آنے سے گریز کرتے رہے ہیں ۔ یوں بھی ٹی وی کی سکرین جس طرزِ استدلال اور عاقلانہ معروضیت کی متقاضی ہے، ایمان وایقان کے اُسلوب میں ڈھلے اعتقادات و نظریات اس سے یکسر مختلف روحانی ماحول میں ہی پروان چڑھ سکتے ہیں ۔ بہرطورا س ضرورت کے سبب اور درپیش حالات میں رونما ہونے والی تیز رفتار تبدیلی کوسامنے رکھتے ہوئے مسئلہ تصویرپر علماے کرام میں کئی بار یہ موضوع اُٹھایا گیا جس کے نتیجے میں کئی ایک مذاکرے اور مباحثے منعقد ہوتے رہے۔
مسئلہ تصویر پر جملہ مکاتب ِفکر کا نمائندہ مذاکرہ
ماضی میں جب بھی کسی مذہبی جماعت نے عامتہ المسلمین میں دینی دعوت کو توسیع دینے کا سوچا تو سب سے پہلے اسی مسئلہ تصویرپر ایک معرکہ اُنہیں طے کرنا پڑا، چنانچہ ۸۰ء کے عشرے میں جماعت ِاسلامی میں یہ مسئلہ پیدا ہوا او راُنہوں نے ایک موقف پر اطمینان حاصل کیا۔ حالیہ میڈیا پالیسی کے بعد ٹی وی چینلوں کی بھرمار کے اِنہی دنوں میں جب دین کے نام لیوا بعض حلقوں نے ٹی وی کو اپنی جہد وکاوش کا مرکز بنانا چاہا تو ’تصویرکے مسئلہ‘ پر اُنہوں نے بھی ایک ’باضابطہ‘ موقف اختیار کیا، اب جب مدارس ومساجد سے وابستہ علماے کرام کے معاشرتی کردار کو مزید مؤثر کرنے پرغور وخوض ہوا تو یہی مسئلہ سب سے پہلے اَساسی توجہ کا طالب ٹھہرا۔ اس اعتبارسے مسئلہ تصویر جدید میڈیا کے اس دور میں انتہائی بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔
گذشتہ برس جملہ مکاتب ِفکر کی سرکردہ علمی شخصیات پر مشتمل ’ ملی مجلس شرعی‘ کے نام سے ایک مستقل پلیٹ فارم تشکیل دیا گیا تھاجس کا ہدف یہ تھا کہ ’’فروعی اختلافات سے بالاتر رہتے ہوئے عوام الناس کو اسلام کی روشنی میں درپیش جدید مسائل کا حل‘‘ پیش کیا جائے۔ اس مجلس شرعی کے تاسیسی اجلاس(منعقدہ جامعہ نعیمیہ، لاہور) میں بھی سب سے پہلے یہی ’مسئلہ تصویر‘ ہی موضوعِ بحث بنا۔ ’ملی مجلس شرعی‘ کا دوسرا اجلاس جامعہ اشرفیہ، لاہور میں ۴/ نومبر۲۰۰۷ء کو منعقد ہوا تو اس میں اس مسئلہ کے بنیادی خطوط پر سرسری تبادلہ خیال کیا گیا اور وہیں وسیع