کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 38
اس کے بعد ملی مجلس شرعی کے ایک اجلاس منعقدہ ۴/نومبر ۲۰۰۷ء میں اس مسئلے پر غور وخوض ہوا جو جامعہ اشرفیہ، لاہور میں ہوا تھا ۔اس میں فیصلہ کیا گیا کہ اہل سنت کے تینوں مکاتب ِفکر (اہل حدیث،دیوبندی اور بریلوی) کے علما کا مشترکہ وسیع تر اجلاس بلایا جائے ۔چنانچہ یہ اجلاس ۱۳/اپریل ۲۰۰۸ء کو مفتی محمد خان قادری صاحب کی درسگاہ جامعہ اسلامیہ،جوہر ٹاؤن لاہور میں ہوا جو صبح ۱۰ بجے سے شام ۵ بجے تک جاری رہا،اس میں پنجاب بھر سے متعدد علماے کرام نے شرکت کی اور مذاکرے میں حصہ لیا ۔ اس میں بھی بالآخر یہی فیصلہ کیا گیا کہ حالات کا تقاضا ہے کہ علماء ٹی وی کے محاذ کو بھی دفاع اسلام کے لیے استعمال کریں اور اسے دشمنانِ اسلام ہی کے لیے مخصوص نہ رہنے دیں ۔ گویا راقم الحروف اور اس کے ہم نوا بعض علما کے رائے کے برعکس، علما کی اکثریت اس بات پر مصر ہے کہ تبلیغ ودعوت کے لیے الیکٹرانک میڈیا کا استعمال کیا جانا چاہیے، وہ اسے اضطرار اور ضرورتِ مبیحہ کے تحت جواز کا درجہ دیتے ہیں ۔یہ رائے اگرچہ محلِ نظر ہی ہے جیسا کہ اوپر اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔ اس لیے علماے کرام اور دیگر مخلصانِ اسلام کی خدمت میں ہماری یہی گزارش ہے کہ وہ اس کے جواز کو شرحِ صدر اور خوش دلی کے ساتھ تسلیم نہ کریں بلکہ اسے وہی حیثیت دیں جو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ یا ڈرائیونگ لائسنس وغیرہ ضروریات کے لیے فوٹو کی حیثیت ہے۔ممکن ہے اللہ تعالیٰ ان کے اِخلاص کے پیش نظر ٹی وی تصویر سے بھی درگزر فرما دے جیسے اس سے شناختی کارڈوغیرہ کی تصویر میں ہمیں معافی کی اُمید ہے ۔ ہماری اس رائے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ 1. ٹی وی کے صرف ان پروگراموں میں شرکت کی جائے جن سے فی الواقع کچھ فائدہ متوقع ہو۔یہ شرکت بھی اسی طرح مع الکراہت ہو جیسے شناختی کارڈ وغیر ہ کے لیے تصویر کھنچواتے وقت کراہت پیش نظر رہتی ہے ۔ 2. ٹی وی مذاکرات میں شرکت سے گریز کیا جائے،کیونکہ ان میں ماہرانہ چابک دستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اصحابِ زیغ وضلال کو بھرپور موقع دیا جاتا ہے اور صحیح الفکر علماء کو صرف استعما ل کیا جاتا ہے جس سے فائدے سے زیادہ نقصان ہوتا ہے۔