کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 37
باقی رہ گیا مسئلہ اضطرار کی صورت میں تصویرسازی کے جواز کا۔ اس کے لیے ایک فقہی اُصول کا حوالہ دیا جاتا ہے: الضرورات تبیح المحظورات (ضرورتیں ممنوعہ چیزوں کو بھی جائز کر دیتی ہیں )۔یہ اُصول بجائے خود درست ہے مگر قابل غور بات یہ ہے کہ ٹی وی پروگراموں میں حصہ لینا کیا واقعی ایسی ضرورت ہے کہ جس کے بغیر چارہ نہ ہو؟کیا آڈیو کے ذریعے سے یہ کام ایک عرصے سے نہیں ہورہا ہے؟اور کیا آڈیو کا ذریعہ ہی تبلیغ ودعوت کے لیے کافی نہیں ہے ؟ مسلمان قوم اس وقت جس پستی میں گری ہوئی ہے، وہاں علما کے مواعظ ونصائح اس کے لیے یکسر غیر مؤثر ہیں ۔ علماے کرام اپنے خطبات ودروس میں ،جلسہ ہائے سیرت میں سالہا سال سے مسلسل قوم کی اصلاح وتطہیر اور تصفیۂ عقائد کا کام کررہے ہیں ،لیکن قوم عقائد سے لے کر اخلاق وکردار تک ہر معاملے میں دن بدن اصلاح ہونے کے بجائے زوال پذیر ہے، ترقی کے بجائے روبہ انحطاط ہے اور مذہب کے قریب آنے کے بجائے مذہب سے دور ہوتی جارہی ہے ۔اگر ویڈیو کا ذریعہ اختیار کر لیا جائے تو اس سے کیا اس کی اصلاح کا آغاز ہوجائے گا؟اس کا عقیدہ وعمل صحیح ہوجائے گا ؟اس کی ترجیحات تبدیل ہوں جائیں گی؟دنیا کے مقابلے میں آخرت کی فکر اس پر غالب آجائے گی؟ ہمیں تو اس تبدیلی کے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آتے ورنہ اضطرار کی صورت میں حرام کے حلال ہونے کا اُصول تو خود قرانِ مجید میں موجود ہے۔ ﴿فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلاَ عَادٍ فَلاَ اِثْمَ عَلَیْہِ﴾(البقرۃ :۱۷۳)لیکن تبلیغ ودعوت کے لیے ٹی وی پر آنے کو نہ ایسی ناگزیر ضرورت ہی قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ اضطراری ہی کہ جس سے حرمت کا حکم حلت میں تبدیل ہوجائے۔ بہر حال زیر بحث مسئلے کی یہ وہ صورتِ حال ہے جس پر راقم کافی غور وخوض اور مختلف مجالسِ مذاکرہ میں شرکت کے بعد پہنچا ہے۔ اس سلسلے کی ایک مجلس مذاکرہ حکیم حامد اشرف صاحب کی دعوت پر جامعہ تعلیماتِ اسلامیہ فیصل آباد میں جون ۲۰۰۷ء میں ہوئی تھی، اس میں علماء کی اکثریت نے اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ علماء کو ٹی وی پروگراموں میں حصہ لینا چاہیے۔