کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 36
اور ظالم اللہ کے ہاں مجرم متصور ہوں گے نہ کہ محسن(اچھا کام کرنے والے)۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے جوا اور شراب کی حرمت کی بابت سوال کے جواب میں فرمایاہے:﴿فِیْہَا اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّمَنَافِــــعُ لِلنَّاسِ ﴾(البقرۃ :۲۱۹)’’ان دونوں میں بہت گناہ ہے اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں ۔‘‘اس جواب میں ایک نہایت اہم اُصول کی طرف رہنمائی فرمائی گئی ہے کہ کچھ نہ کچھ فوائد تو ہر چیز میں ہوتے ہیں ، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ فوائد کے مقابلے میں نقصان اور ضرر کتنا ہے ؟ اگر ضرر کی مقدار زیادہ ہوگی تو وہاں فوائد کو نظر انداز کر کے نقصان کو اہمیت دی جائے گی اور اس کے پیش نظر اس کی حرمت کا فیصلہ کیا جائے گا ۔ اسلامی چینل کے قیام کا ایک بڑا نقصان یہ ہوگا کہ جو گھرانے ابھی تک ٹی وی سے محفوظ ہیں ،اس بہانے ان گھروں میں بھی ٹی وی آجائے گا اور اس کے بے ہودہ پروگراموں سے پھر انکے بچے بھی ’محظوظ‘ہوں گے جن کو ابھی تک ان کے والدین نے اس لعنت سے بچایا ہوا تھا۔ دوسرا نقصان یہ ہوگا کہ مذہبی جماعتوں کے قائدین اور راہنماؤں کے اندر بھی اخبارات میں اپنی تصویروں کی اشاعت ووسعت میں مزید اضافہ ہوجائے گا ۔عوام کی اکثریت فقہی باریکیوں سے تو نا آشنا ہوتی ہے ،وہ علماء کے ٹی وی چینل پر جلوہ افروز ہونے کو اپنے بے مقصد اور بلا ضرورت شادی بیاہ کی تقریبات کی فلم سازی کے لیے وجہ ِجواز بنا لیں گے ۔ تیسرا نقصان یہ ہوگا کہ مذہبی جماعتوں کے قائدین اور راہنماؤں کے اندر بھی اخبارات میں اپنی تصویروں کی اشاعت کا اور اپنے پروگراموں کی ویڈیو فلمیں بنانے کا شوق بڑھتا جارہا ہے، ٹی وی کے اذنِ عام سے اس غیر شرعی رجحان کی بھی حوصلہ افزائی ہی ہوگی جب کہ ضرورت اس رجحان کی حوصلہ شکنی کی ہے ۔ چوتھا نقصان یہ ہوگا کہ عوام میں تصویر کی حرمت کا تصور ہی ختم ہوتا چلا جارہا ہے، ٹی وی کی اجازت سے اس عوامی رجحان کی مزید حوصلہ افزائی ہوگی۔ اس طرح کے اور بھی متعدد دینی نقصانات ہیں جو ٹی وی چینل کے جواز سے ہوں گے،ان کے مقابلے میں فوائد کیا ہوں گے؟وہ موہوم ہیں ،یقینی نہیں ہیں جب کہ مذکور ہ نقصانات یقینی بھی ہیں اور حرمت کے فتوی کے باوجود ان کا رتکاب بھی عام ہے ۔