کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 35
اس سلسلے میں بعض علماء تصویر کی دو قسمیں کرتے ہیں : ایک وہ جو ہاتھ سے بنائی جاتی ہے اور دوسری جو کیمرے کے ذریعے سے بنتی ہے۔ اس دوسری قسم کو وہ آئینے کے عکس کی طرح قرار دے کر اس کے جواز کی گنجائش نکالتے ہیں ۔ لیکن ظاہر بات ہے کہ یہ موقف کسی طرح بھی درست نہیں ۔ کیمرے کی تصویر کو آئینے یا پانی کے عکس کی طرح نہیں سمجھا جا سکتا اور دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کیمرے کی تصویر بھی اپنے نتیجے اور اثر کے اعتبار سے ہاتھ کی تصویر سے قطعاً مختلف نہیں بلکہ کیمرے کی تصویر صفائی،حسن اور جاذبیت کے اعتبارسے ہاتھ کی تصویر سے کہیں زیادہ بہتر اور کہیں زیادہ فتنہ انگیز ہے اور کیمرے کی ایجاد نے تصویری فتنے کو جتنا عام اور خطرناک بنا دیا ہے،چند سال پہلے تک اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔اس لیے یہ موقف یکسر غلط اور بے بنیاد ہے،اسے کسی لحاظ سے بھی صحیح قرار نہیں دیا جا سکتا۔
بعض علما نے ایک اور طرح سے تصویر کی دو قسمیں بنائی ہیں : ایک تو وہ جو ٹی وی پر نشر کرنے کیلئے پہلے سٹوڈیو میں بطورِ فلم تیار کر لی جاتی ہے اور پھر اسے ٹی وی پر ریلیز کر دیا جاتا ہے۔ یہ علما اس صورت کو جائز قرار دے کر ٹی وی پروگراموں میں شرکت کو جائز سمجھتے ہیں ۔
ایک تیسری رائے یہ ہے کہ تصویر بہر صورت حرام ہے اور اضطراری صورت کے علاوہ تصویر کشی کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔ ان علماے کرام کا کہنا ہے کہ کسی بھی نیک مقصد کے لیے ناجائز ذریعہ اور وسیلہ اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اچھے مقصد کے لیے ذریعہ بھی جائز ہی ہونا چاہیے، کیونکہ ہم جائز حدود میں رہ کر ہی کام کرنے کے مکلف ہیں ،اس سے زیادہ کے ہم مکلف ہی نہیں ہیں :﴿لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا﴾(البقرۃ:۲۸۶) اس لیے اگر ہم جائز حدود میں رہتے ہوئے تبلیغ ودعوت میں کوتاہی نہیں کرتے، تو قطع نظر اس کے کہ ہمیں کامیابی حاصل ہوتی ہے یا نہیں ،عنداللہ ہم ماجور ہی ہوں گے،ماخوذنہیں ۔اور اگر ہم حدود شکنی کر کے اپنے دائرۂ تبلیغ کو وسعت د ے دیتے ہیں ،توکامیابی یا ناکامیابی کا علم تو اللہ ہی کو ہے،لیکن ہم شاید مؤاخذۂ الٰہی سے نہ بچ سکیں ،کیونکہ حکم الٰہی ہے :
﴿وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَاُوْلٰئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ﴾ (البقرۃ:۲۲۹)
’’اللہ کی حدوں سے تجاوز کرنے والے ظالم ہیں ۔‘‘