کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 34
ہے اوروہ اپنے دین اور اسلامی تہذیب سے دور سے دور تر ہوتے جارہے ہیں ۔مسلمان ذرائع ابلاغ (اخبارات اور ٹی وی وغیرہ) اگر کوئی دینی پروگرام نشربھی کرتے ہیں تو وہ اصل دین نہیں ہوتا بلکہ دین کے نام پر جو غیرشرعی رسومات رائج ہیں ،ان کا پرچارکرتے ہیں یا پھر ان متجددین اور منحرفین کو دین کی تشریح کے لیے بلاتے ہیں جو مغربی تہذیب کی تمام قباحتوں کو سند ِجوازمہیا کردیتے ہیں ۔ اس صورتحال نے اُس اسلامی طبقے کو پریشان اور مضطرب کررکھا ہے جو اسلامی تہذیب وتمدن اور اقدار وروایات کے تحفظ اور ان کے فروغ وذیوع کا جذبہ اپنے دلوں میں رکھتا ہے۔ وہ اگرچہ کتابوں اور رسائل وجرائد کے ذریعے سے دین اسلام کی ترویج اوراس کے احیاوفروغ کے لیے اپنی استطاعت کے مطابق کام کررہا ہے، لیکن ان مساعی سے ایسے کڑوڑوں افراد تک دین اسلام کا صحیح تصور پہنچنا ناممکن سا ہے جو صرف جدید ذرائع ابلاغ ہی سے استفادہ کرتے ہیں یا بالفاظِ دیگر وہ ان کی زد میں ہیں ۔ بنا بریں اسلامی جذبہ وشعور سے بہرہ ور یہ دینی طبقہ جدید ذرائع ابلاغ کو بھی اسلام کی نشرواشاعت کے لیے استعمال کرنا چاہتاہے، لیکن اس کی راہ میں متعدد رکاوٹیں ہیں جس کے لیے وہ علماے اسلام کی راہنمائی کا طالب ہے ۔مثلاً 1. ٹی وی پر جتنے پروگرام ٹیلی کاسٹ (نشر) ہوتے ہیں ،نناوے فیصد بے ہودہ،مخرب اخلاق، حیا سوز اور ایمان شکن ہوتے ہیں ۔اس اعتبار سے یہ لہو ولعب کا ایسا آلہ ہے جہاں پاکیزہ پروگرام پیش کرنا اُس پروگرام کے تقدس کے منافی محسوس ہوتا ہے ۔ 2. تصویر شرعاً حرام ہے اور اس میں تصویر ناگزیر ہے ۔ جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے تو اس کا جواب اکثر علماء یہ دیتے ہیں کہ ٹی وی وغیرہ محض ایک آلہ ہیں ،اُنہیں خیر کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اور شر کے لیے بھی۔اگر خیر کے لیے اُنہیں استعمال کیا جائے تو ان کا استعمال جائز ہے،بصورتِ دیگر ناجائز۔ تاہم تصویر کا مسئلہ بلاشبہ نہایت قابل غور ہے، کیونکہ تصویر کی بابت اسلام کے احکام بہت سخت ہیں ،ان کے پیش نظر اس کے جواز کا موقف رکھنا ممکن نہیں ۔