کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 32
کی ویڈیو تیار کرنا درست نہیں ہوگااور ان کا ٹی وی کے سامنے ننگے سر،ننگے منہ میک اپ کر کے آنا جائز نہیں ہوگا؟کیا اس پر پابندی عاید کرنا ممکن ہوگا اور باتصویر رسالوں میں ا ن کے جو فتنہ ساماں پوز شائع ہوں گے، ان پر قدغن عاید کرنا آسان ہوگا؟ان آلات کے ذریعے جو بے حیائی اور بے شرمی پر مبنی مناظر عام ہورہے ہیں اور عریانی اور فحاشی نے وبا کی صورت اختیار کرلی ہے، اس کے سامنے بند باندھنا کیا جوئے شیر بہانے کے مترادف نہیں ہوگا۔
تبلیغ دین کی ضرورت کے لئے تصویر سازی
یہاں عموماً ایک فقہی اُصول اور ضابطہ کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ الضرورات تبیح المحظورات مجبوری اور اضطرار سے ناجائز چیز مباح ہوجاتی ہے۔لیکن اس پر یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ ضرورت اور مجبوری کا دائرہ کیا ہے، اس کی تعیین یا تحدید ہوسکتی ہے یا نہیں ؟ اگر یہ عام ہے تو ہمارے ملک کی تباہی کا باعث بھی تو عدالت کا نظریۂ ضرورت ہی بنا ہے ۔ اس پر تمام حضرات کیوں معترض ہیں اور اس کے دفن کرنے پر کیوں زور دیا جارہاہے ۔
اگر تبلیغ دین اور مصالح کے تحت تصویر کو جائز قرار دیاجائے گا تو کیا دوسروں کو تصویر سے روکا جاسکے گا؟ اور کیا دین کی تبلیغ اور اشاعت کے لیے تصویر اور فوٹو کا ہونا ضروری ہے یا مجبوری؟ کیا تصویر کے بغیر یہ کام نہیں ہوسکتا ؟ اس کا نتیجہ تو یہ ہوگا کہ آپ کھڑے ہونے کی اجازت دیں ، ’’لیٹنے کی جگہ ہم خود بنا لیں گے۔‘‘ دین کے لیے دین کے مخالف اور متصادم ذرائع سے کام لینا کیا دینی طور پر درست ہوگا ؟
فی زمانہ اپنی اپنی سوچ اور نظریے کے مطابق جماعۃ الدعوۃ اور تبلیغی جماعت بغیر تصویر کے وسیع پیمانے پر دعوتِ دین کا کام کررہے ہیں اور آج تصویر کے سوا بھی اس قدر ذرائع ابلاغ پیدا ہوچکے ہیں جن کا کوئی شمار نہیں ، آخر ان سب سے کیوں کام نہیں لیا جاتا اور ان کے ذریعے دین کیوں نہیں پھیلایا جاتا۔ سب سے بڑا اور مؤثر ذریعہ اپنا عمل اور سیرت وکردار ہے ہم ا س سے اس قدر کیوں غافل ہوچکے ہیں جو دعوتِ دین اور اشاعت ِدین کا نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اورمنصوص ذریعہ ہے اور مؤثر ترین بھی ہے ۔