کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 3
دین تو پورا نہیں کرسکتا نتیجتاً ’ضرورت ایجاد کی ماں ہے‘ کے مصداق ایسے ’دینی ماہرین‘ کی ایک فوج ظفر موج وجود میں آچکی ہے جو کسی دینی درسگاہ سے باقاعدہ تعلیم یافتہ ہونے کی بجائے عوام کے دینی جذبات کا خوبصورت الفاظ میں استحصال کرنے کی صلاحیت سے تو مالا مال ہوتے ہیں تاکہ عوام کی دین سے وابستگی کے فطری جذبہ کی بھی تسکین ہوسکے اور ہردم بدلتی نئی دنیا کے تقاضے بھی پورے ہوتے رہیں ۔ ان نام نہاد دینی پروگراموں کے معیار کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عین پروگرام سے قبل مرد وزَن کے اختلاط کے مناظر بھی ٹی وی پرچلتے رہتے ہیں ، دورانِ پروگرام فحش ٹی وی اشتہارات بھی اور پس منظر میں دھیمے سروں کی موسیقی بھی، ان چیزوں کے جلو میں عوام کو دینی رہنمائی بھی حاصل ہوتی رہتی ہے۔
ٹی وی چینلوں کی مقبولیت اور عوام میں ان کی اثر پذیری کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے کئی ایک ’مذہبی‘ سکالروں کی مقبولیت اسی پردۂ سیمیں کی مرہونِ منت ہے اور محض اسی سبب وہ اسلامیانِ پاکستان کے مذہبی قائد و رہنما کے منصب و اِعزاز پر براجمان ہیں جبکہ ان کے پندارِ علم اوردینداری کا یہ عالم ہے کہ طبقہ علما میں نہ تو ان کی ذات کو کوئی اچھا تعارف حاصل ہے اور نہ ہی اُن کے پایۂ علم کو مستند خیال کیا جاتا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ جدید میڈیا کی کرشمہ سازیوں کے سبب عوامِ پاکستان کی دینی بساط اب مسجد ومدرسہ سے نکل کر اسی ٹی وی سکرین کی مرہونِ منت ہوچکی ہے جس پر حیا باختہ اداکارائیں بھی مختصر لباس میں جلوہ افروز ہوتی ہیں ۔
ہر لمحے تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے اس ماحول اور زوال پذیر معاشرتی صورتحال کو ہر دردمند مسلمان بری طرح محسوس کرتا ہے۔ اور اسی تناظر میں ہر صاحب ِفکر یہ توقع کرتا دکھائی دیتا ہے کہ منبر ومحراب کے حقیقی وارث علماے کرام بھی اَب روایتی اُسلوبِ دعوت و تربیت سے آگے بڑھتے ہوئے ان ٹی وی چینلوں کے ذریعے ان کے مذہبی رجحانات کی تشفی کریں ۔ یہاں یہ بنیادی نکتہ ان کی نظر سے اوجھل ہوجاتا ہے کہ جب دین کی مقدس تعلیم کو بھی مقصد وہدف سے قطع نظر ٹی وی چینل کے مالک کے جذبہ حصولِ منفعت کے پیش نظر ابلاغ کی لہروں کے سپرد کیا جائے گا تومنبر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مقدس مشن کیسے لوگوں کے سپرد ہوگا اورعوام کی دینی تعلیم