کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 28
غیرسایہ دار کی تصویر
وہ حضرات جو غیر سایہ دار کی تصویر کو جائز سمجھتے ہیں ، ان کا مقصود یہ ہے کہ مجسمہ چونکہ سایہ دار ہوتا ہے ، اس لئے وہ تو حرام ہے، البتہ جو تصویر کاغذ یہ کپڑے پر منقوش ہو، مجسمہ نہ ہونے کی وجہ سے ایسی تصویر جائز ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ رقم في الثوب (کپڑے پرنقش) کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ لیکن رقم في الثوب کو تصویر قرار دینا درست نہیں ہے، کیونکہ اس سے مراد غیر جاندار کی تصویر ہے۔کپڑے پر بھی تصویر حرام ہے کے بعض دلائل یہ ہیں :
1. حضرت ِعائشہ رضی اللہ عنہا صدیقہ فرماتی ہیں :
قدم رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم من سفر وقد سترتُ بقرام لي علی سہوۃ لي فیہا تماثیل فلما رآہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ھتکہ ( صحیح بخاری:۵۹۵۴)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے واپس تشریف لائے اور میں نے ایک باریک باتصویر پردہ سے طاقچہ کو ڈھانپا ہو اتھا۔ آپ نے اس کو پھاڑ ڈالا۔‘‘
2. دوسری حدیث ہے :
’’میں نے تصاویر والا گدا خریدا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دروازہ پر کھڑے ہوگئے اور اندر داخل نہ ہوئے۔ میں نے عرض کیا کہ مجھ سے کیا گناہ سرزد ہوگیا، میں اللہ تعالیٰ سے معافی کی طلب گار ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ماھذہ النمرقۃ؟ یہ گدا کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا :یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹھنے اور ٹیک لگانے کے لیے ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إن أصحاب ھذہ الصور یعذبون یوم القیامۃ)) (صحیح بخاری:۵۹۵۷ )
قیامت کے دن ان تصویرسازوں کو عذاب پہنچایا جائے گا۔ ‘‘
اس کے تحت حافظ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں :
یُستفاد منہ أنہ لا فرق في تحریم التصویر بین أن تکون الصورۃ لھا ظل أوْلا ولا بین أن تکون مدھونۃ أومنقوشۃ أومنقورۃ أومنسوجۃ (۱۰/ ۳۹۰)
’’اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تصویر کے حرام ہونے میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کا سایہ ہے یا نہیں ؛ وہ رنگ سے بنی ہے، منقش ہے یا کھودی گئی یا بُنی گئی ہے۔ ‘‘