کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 27
أو ما لا ظل لہ۔ ۔ ۔ جماھیر العلماء من الصحابۃ والتابعین ومن بعدھم وھو مذہب الثوري ومالک وأبي حنیفۃ وغیرھم
(شرح صحیح مسلم: ۲/ ۱۹۹ پاکستانی نسخہ ؛ عمدۃ القاری: ۱۰/ ۳۰۹)
’’شوافع اور دوسرے علما کے نزدیک جاندار کی تصویر انتہائی سخت حرام ہے اور کبیرہ گناہوں میں سے ہے، کیونکہ احادیث میں اس پر شدید ترین دھمکی دی گئی ہے۔ اس میں کوئی فرق نہیں کہ تصویر ایسی چیز پر بنائی کہ اس کی توہین کی جاتی ہے یا کسی اور چیز پر تصویر بنانا، ہر حالت میں حرام ہے، کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی تخلیق کے ساتھ مشابہت پائی جاتی ہے۔ یہ تصویر کپڑے پر ہو یا بچھونے پر، درہم ودینار یا پیسے پر ہو یا برتن اور دیوار پر یا کسی اور چیز پر۔ اس میں بھی کوئی فرق نہیں کہ تصویر کا سایہ ہو یا سایہ نہ ہو۔ صحابہ تابعین اور بعد کے علما کی اکثریت کا یہی قول ہے اور امام ثوری رحمہ اللہ ،امام مالک رحمہ اللہ ،امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور دوسرے فقہا کا بھی یہی موقف ہے۔ ‘‘
ائمہ ثلاثہ (امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ،امام شافعی رحمہ اللہ اورامام احمد رحمہ اللہ ) کے نزدیک ہر قسم کی تصویر، چاہے اس کا سایہ ہو یا نہ ہو، حرام ہے۔ اور مالکیہ کے ہاں اختلاف ہے جیسا کہ علامہ دردیر رحمہ اللہ الشرح الصغیر علی مختصر الخلیل میں لکھتے ہیں :
الحاصل أن تصاویر الحیوانات تحرم إجماعًا إن کانت کاملۃ، لھا ظل مما یطیل استمرارہ، بخلاف ناقص عضو لا یعیش بہ لو کان حیوانًا وبخلاف ما لہ ظل لہ کنقش ورق أو جدار۔ وفیما لا یطیل استمرارہ خلاف، والصحیح حرمتہ (الصاوي علی الشرح الصغیر:ج ۲/ ص ۵۰۱ بحوالہ تکملۃ فتح الملہم: ج ۴/ ص ۱۵۹)
’’خلاصہ یہ ہے کہ جاندار وں کی تصاویر بالاتفاق حرام ہیں ۔ جب وہ کامل ہوں اور سایہ دار ہوں جو طویل عرصہ تک رہتی ہیں ۔ البتہ اگر ان کا ایسا عضو موجود نہ ہو جس کے سبب جاندار زندہ نہ رہ سکتا ہو تواس میں اختلاف ہے۔ اسی طرح جس تصویر کا سایہ نہ ہو،جب وہ کاغذ یا دیوار پر منقش ہو یا ایسی چیز پر بنی ہو جو تادیر نہیں رہتی تو اس میں اختلاف ہے ۔ صحیح بات یہی ہے کہ وہ بھی حرام ہے۔ ‘‘