کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 23
کے لیے بامر مجبوری تصویر کا جواز ہے۔‘‘ ٭ آخر میں سعودی عرب کی دائمی فتویٰ کونسل کا فتویٰ بھی ملاحظہ فرمائیے: ’’النہي عن التصویر عام دون نظر إلی الآلۃ والطریقۃ التي یکون بہا التصویر۔ أما التلفزیون فیحرم ما فیہ من غناء أو موسیقي وتصویر وعرض صور ونحو ذلک من المنکرات ویُباح ما فیہ من محاضرات إسلامیۃ ونشرات تجاریۃ أو سیاسیۃ ونحو ذلک مما لم یرد في الشرع منعہ وإذا غلب شرہ علی خیرہ کان الحکم للغالب‘‘ ’’تصویر کی حرمت عام ہے، چاہے آلہ یا کسی بھی طریقہ سے تصویر لی جائے۔ البتہ ٹی وی پر گانے، موسیقی اور تصاویر جیسی منکرات حرام ہیں ،لیکن اسلامی لیکچر، تجارتی اور سیاسی خبریں جن کی شریعت میں ممانعت وارد نہیں ، جائز ہیں ۔البتہ جب اِن کا شر خیر پر غالب آ جائے تو اعتبار غالب کا ہوگا۔ ‘‘ (فتاوٰی اللجنۃ الدائمۃ:۱/۶۷۴، فتویٰ نمبر: ۵۸۰۶) مذکورہ بالا قراردادوں اور فتاویٰ سے یہ بات البتہ کھل کر واضح ہوجاتی ہے کہ موجودہ حالات میں تصویر کی حرمت کی بنا پر ٹی وی مذاکروں مباحثوں میں شرکت نہ کرناشرعی طورپر کوئی وزن نہیں رکھتا۔ کیونکہ پاکستان کے جملہ مکاتب ِفکر کے علما نے تبلیغ اسلام کے لئے تصویر کو گوارا یا جائز سمجھنے پر اتفاق کیا ہے، البتہ کسی انتظامی مشکل یا ٹی وی پروگرام کی نوعیت و ترتیب کے پیش نظر اس سے وقتی طورپر ضرور گریز کیا جاسکتا ہے۔ علما کو نہ صرف اس حوالے سے مزید کوششیں بروے کار لاتے ہوے اپنے تجربہ واستدلال کو کام میں لانا چاہئے بلکہ دیگر ایسے ذرائع جن کے بارے میں کسی قسم کی حرمت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ان تک بھی اپنی دعوت کو وسیع کرنا چاہئے مثلاً ایف ایم ریڈیو چینل اور انٹرنیٹ وغیرہ۔ یاد رہے کہ موجودہ متفقہ فتویٰ کا محرک وہ صورتحال ہے جس نے ٹی وی پر چینلوں کی کثرت کے حوالے سے جنم لیا ہے، اس کا شافی وکافی جواب اُسی مقام پر ہی دیا جاسکتا ہے جہاں سے یہ فتنہ پیدا ہورہا ہے۔ علما کے روایتی ذرائعِ دعوت ،منبر ومحراب اور رسائل وجرائد سے نئے پیدا ہونے والے فکری انتشار کا مداوا ممکن نہیں ۔ فی الوقت علما کے منصب ِتبلیغ دین کے حوالے سے یہ المناک صورتحال درپیش ہے کہ عوام کے دینی رجحانات وتصورات مسخ کئے جارہے ہیں ، اس لئے اس کا شافی جواب ہرصورت دیا جانا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ علما کو اپنے فرائضِ منصبی کو مزید بہتر طورپرپورا کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور فرمائے ۔ (حافظ حسن مدنی)