کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 22
’’ملی مجلس شرعی کے زیراہتمام اس کے مستقل ارکان اور جملہ مکاتب ِفکر کے علماے کرام کا یہ وسیع تر اجلاس اس رائے کا اظہار کرتاہے کہ اسلام کا حیات آفریں پیغام دوسروں تک جلد اور مؤثر انداز میں پہنچانے اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف غلط فہمیوں اور پروپیگنڈے کے ازالے کے لیے علماے کرام کو ٹی وی پروگراموں میں حصہ لینا چاہیے اور الیکٹرانک میڈیا کے لیے ایسے تعمیری، اصلاحی اور تعلیمی پروگرام بھی تیار کیے جانے چاہئیں جو شرعی منکرات سے پاک ہوں ، اسلامی دعوت واصلاح اور تبلیغ کے لیے مفید ہوں اور جن سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ناجائز اور مکروہ پروپیگنڈے کاتدارک ہوتاہو۔‘‘
٭ جامعہ سلفیہ، فیصل آباد کے شیخ الحدیث مولانا عبد العزیز علوی صاحب نے اس قرارداد پر اپنے قلم سے یہ اضافہ کیا اور اس پر اپنے دستخط ثبت کئے کہ
’’ میڈیا پر جو تصاویر آتی ہیں ، ان کو ناجائز اور حرام سمجھتے ہوئے إلا من أکرہ وقلبہ مطمئن کے پیش نظرمیڈیا سے دفاعِ اسلام درست ہے۔‘‘
٭ اس موقع پر مولانا حافظ صلاح الدین یوسف نے بھی ایک تحریربطورِ قرار داد تیار کی تھی جو پیش تو نہ کی جاسکی، البتہ معلومات اور موقف کے اظہار کے لئے اس کا مسودہ ملاحظہ فرمائیے:
’’اہل سنت کے تینوں مکاتب ِفکر اہلحدیث،دیوبندی اور بریلوی علماء کاایک اجتماع جامعہ اسلامیہ، جوہرٹاؤن لاہور میں بتاریخ ۱۳/اپریل ۲۰۰۸ء کو منعقد ہوا۔موضوع تھا:
تبلیغ ودعوت کے لئے الیکٹرانک میڈیا(ٹی وی،انٹرنیٹ وغیرہ)کااستعمال جائز ہے یا نہیں ؟
تمام علما نے اپنی اپنی رائے کااظہار کیا اور اس مؤقف پر تقریباًتمام علما نے اتفاق ظاہر کیا کہ
٭ تصویر کی حرمت قطعی اور ابدی ہے، اس کے جواز کی کوئی گنجائش نہیں ۔
٭ تصویر ہاتھ سے بنی ہوئی ہو یا کیمرے کے ذریعے سے، دونوں میں کوئی فرق نہیں اور دونوں ہی یکساں طور پر حرام ہیں ۔
٭ آج کل بعض لوگ دینی رہنماؤں ،بزرگوں اور پیروں کی تصویریں فریم کراکر دکانوں اور گھروں میں آویزاں کرتے ہیں ، اسی طرح بعض علماء اور نعت خوانوں کی تصاویر پر مبنی اشتہارات عام شائع ہورہے ہیں ، یہ سب ناجائز اور حرام ہیں ۔
٭ تاہم ٹی وی وغیرہ پر لادینیت کی جو یلغار ہے، اس کے سدباب کے لیے علما کے تبلیغی پروگراموں میں حصہ لینے کی اسی طرح گنجائش ہے جیسے شناختی کارڈاور پاسپورٹ وغیرہ