کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 21
کوئی ممانعت موجود نہیں ۔فن مصوری کے بارے میں ایک سوال پر ان کا جواب ملاحظہ فرمائیے:
’’وہ فن جس پر شرعاً کوئی اعتراض نہیں … قرآنِ مجید اس پر کوئی تنقید نہیں کرتا بلکہ سلیمان علیہ السلام کے اس فن سے فائدہ اُٹھانے کو اللہ کا فضل قرار دیتے ہوئے اس پر شکر بجا لانے کو کہتا ہے، ظاہر ہے کہ وہ فن اپنے اندرایسی شرافت رکھتا ہے کہ اسے کوئی بھی مسلمان اختیا رکرے۔‘‘
(’تصویر کا مسئلہ‘ از محمد رفیع مفتی: ص ۹۶)
بہرحال اس آخری گروہ کا موقف بھی یہ ہے کہ ٹی وی پر آنا شرعی حوالے سے کوئی ناپسندیدہ امر نہیں بلکہ شریعت کے حکم ممانعت میں ہرتصویر سرے سے داخل ہی نہیں ۔
نتیجہ و ثمرہ
مذکورہ بالا تینوں گروہوں کے جہاں مسئلہ تصویر پر موقف باہم مختلف ہیں ، وہاں اس مسئلہ کے جواز کے لئے ہر صاحب ِعلم نے اپنے اپنا اُسلوبِ استدلال اختیا رکیا ہے۔ایسا تو ضرور ہوا کہ کوئی شخصیت کھلے بندوں اس معاملہ کو جائز قرار دے رہی ہے اور کوئی مجبوری واضطرار یا حالات کے جبر کے نام پر بادلِ نخواستہ اس ضرورت کو تسلیم کررہی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہر موقف کے استدلال اور توجیہ سے نتائج میں بھی خاطر خواہ فرق واقع ہوتا ہے، چنانچہ
پہلے گروہ کے موقف ِاضطرار یا اخف الضررین کے مطابق سنگین حالات میں تصویر کی گنجائش نکالی جائے گی اور وہ بھی بادلِ نخواستہ۔ جبکہ پہلے گروہ کے دوسرے موقف کے مطابق گڑیوں کے کھیل سے استدلال کرتے ہوئے یا مقاصد عامہ کے تحت ایسی تمدنی ضروریات کے لئے تصویر کی اجازت ہوگی جن کا حصول شریعت میں اصلاً جائز ہو۔
دوسرے گروہ کے مطابق تصویر تو حرام ہے لیکن وصف ِدوام نہ ہونے کے سبب وہ ٹی وی اور ویڈیو کو حرمت ِتصویر سے نکال لیتے ہیں ۔ اس لئے ان کے ہاں ٹی وی ، ویڈیو اور ڈیجیٹل کیمرہ کو حسب ِخواہش استعمال کیا جاسکتا ہے۔
جبکہ تیسرے گروہ کے ہاں فوٹوگرافی تصویر کا مصداق ہی نہیں ، اس لئے صرف وہی تصویر حرام ہے جو ہاتھ سے بنائی جائے۔ چنانچہ تصویر بنانے اور فلم وویڈیو کی کھلی اجازت ہے، بلکہ آخری موقف کے مطابق تو یہ مطلوب شے ہے۔ بہرطوراَب آپ ان تقاریر کو خود بھی ملاحظہ فرمائیے ۔ پروگرام کے آخر میں متفقہ طورپر منظور کی گئی قرارداد حسب ِذیل ہے: