کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 20
کا اُسلوب اوراس پر صرف کردہ محنت مختلف نوعیت کی ہو۔ فقہ کے قواعد میں یہ امرمسلمہ ہے کہ شرعی حکم اپنی علت کے وجود او رعدم وجود کے ساتھ ہی مربوط رہتا ہے۔‘‘ بہر حال ان جوابی دلائل کا مطالعہ ان کی کتب میں کیا جاسکتا ہے ، جہاں اس موقف کی پوری تردید بھی موجود ہے۔ مذاکرہ میں حافظ محمد زبیر نے اس موقف کی طرف اشارہ کیا تھا۔ ٭ آخری گروہ کا دوسرا طبقہ وہ ہے جنہوں نے اصل کے اعتبار سے ہی اس مسئلہ کو شرعاً جائز قرار دیا ہے، اور وہ پاکستان میں جاوید احمد غامدی صاحب کا ادارہ ’المورد‘ہے جو اصلاً ہی اس بنا پر تصویر کو فی ذاتہ جائز بلکہ مرغوب ومطلوب قرار دیتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ جمال کو پسند کرتے ہیں ۔یہ لوگ قرآنِ کریم کی آیت میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے واقعہ سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ ایسا ممکن نہیں کہ حضرت سلیمان کے لئے تو ایک فعل جائز ہو اور قرآن اس کو جائز قرار دے، لیکن شریعت ِمحمدیؐ میں آکر یہ پسندیدہ ’فعلِ تشکر‘ مذموم ٹھہر [1]جائے، اور احادیث میں ان کی حرمت اور شناعت کا بیان آجائے۔ زیادہ مناسب ہے کہ اس موقف کو تیسرے کی بجائے مستقل چوتھے گروہ کے طورپر سمجھا جائے کیونکہ غامدی حلقہ ہاتھ سے بنی ہوئی تصویر اورمجسّموں کو بھی جائز قرار دیتا ہے۔ چنانچہ تصویر کی حرمت کے مروّ جہ شرعی موقف پر شدید تنقید کرتے ہوئے غامدی حلقہ تصویرکی حرمت کو خالصتاً خارجی وجوہات پر موقوف ٹھہراتا اور احادیث میں بیان کردہ حرمت و شناعت کو ان خارجی وجوہات کے حوالے سے ہی مخصوص قرار دیتا نظر آتا ہے۔ تجدد پسندوں کا یہ طبقہ ایسا ہے جو ہر نوعیت کی تصویر کو براہِ راست مطلوب قرار دیتا ہے۔ ان کا مجسمہ سازی کے بارے میں بھی یہی موقف ہے بلکہ وہ اس سلسلے میں ذی روح اور غیر ذی روح میں بھی کوئی فرق نہیں کرتے۔ ان کی نظر میں فی زمانہ تصویرشرک کی بجائے معلومات کو بآسانی منتقل کرنے او ریادداشت کو محفوظ رکھنے کی خاطر استعما ل ہورہی ہے جو ایک تمدنی ضرورت ہے، جس کی اسلام میں اس کی
[1] حالانکہ حضرت سلیمان کے تماثیل کے بارے میں علما کا یہ موقف ہے کہ وہ بے جان اشیا کی تماثیل تھیں یا ان کی اجازت صرف ان کی شریعت تک محدود تھی، احادیث میں واضح طورپر بکثرت آجانے اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کو تصویریں مٹانے کے مشن پر متعدد بار بھیجنے سے شریعت ِمحمدیؐ کا موقف اس بارے میں بالکل واضح اور بین ہے۔اب بہن بھائیوں کی آپس میں شادی وغیرہ کو بھی کیا محض اسی بنا پر آج گوارا کرلیا جائے؟