کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 19
ان کا کہنا ہے کہ مذکورہ بالا مثال کو اگر تسلیم بھی کرلیا جاے تو یہ مشابہت بہ خلق اللہ کی علت کو رفع کرنے کی حد تک ہی مؤثرہے جبکہ ایسی تصویر میں ذریعہ شرک بننے یا نحوست کا سبب بدستور برقرار رہتا ہے۔ علاوہ ازیں اس بنا پر تو ایسے مصور کے فعل کو ہی حرام ہونا چاہئے جو فرضی تصویریں بناتا ہو، جبکہ ایسا مصور جو کسی جاندار کی صد فیصد تصویر بنانے پر قادر ہو، اس پر یہ حرمت لاگو نہیں ہونی چاہئے، وغیرہ۔ دراصل یہ مثال ہی درست نہیں ہے کیونکہ کوئی شخص قتل کرنے کی قوت نہ رکھتے ہوئے بھی ریوالور کے ذریعے اگر دوسرے کو قتل کردے تو اس صورت میں اسے ہی قاتل سمجھا جائے گا، ریوالور کو نہیں ۔ سعودی عرب کے عالم شیخ صالح فوزان نے اس پرپانچ اعتراضات عائد کرتے ہوئے آخر کار یہی نتیجہ قرار دیا ہے کہ فتبیَّن مما تقدَّم أن التصویر بجمیع أنواعہ تماثیل أو غیر تماثیل، منقوشًا بالید أو فوتو غرافیًا مأخوذًا بالآلۃ کلہ حرام وأن کل من حاول إباحۃ شيء منہ فمحاولتہ باطلۃ وحجتہ داحضۃ (حکم التصویر: ص ۵۸) ’’مندرجہ بالا بحث سے ثابت ہوا کہ تصویر کی ہر نوع حرام ہے، چاہے وہ مجسّمے ہوں یا اس کے علاوہ۔ ہاتھ سے بنائی گئی ہو یا آلہ کے ذریعے فوٹوگرافی ہو، سب تصاویر حرام ہیں ۔ اور جو شخص بھی ان میں سے کسی تصویر کو جائز کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی یہ کوشش باطل اور اس کی دلیل غیر معتبر ہے۔‘‘ ٭ دیارِ سعودیہ کے سب سے معتبر اور محترم مفتی شیخ محمد بن ابراہیم آلِ شیخ فرماتے ہیں : ومن أعظم المنکرات تصویر ذوات الأرواح واتخاذہا واستعمالہا ولا فرق بین المجسّدۃ وما في الأوراق مما أُخِذَ بالآلۃ ’’بدترین گناہوں میں سے ذی روح کی تصویر بھی ہے کہ اس کو بنایا اوراستعمال کیا جائے۔ اس سلسلے میں مجسم اور کاغذوں پر آلاتِ تصویر سے لی جانے والی تصاویر میں کوئی فرق نہیں ۔‘‘ ٭ ایک اور عرب عالم شیخ ولید بن راشد سعیدان اس استدلال کی تردید یوں کرتے ہیں : إنما المعتبر في ذلک کلہ وجود الصورۃ لذوات الأرواح وإن اختفلت وسیلۃ إنتاجہا والجُہد الذي یبذل فیہا، وقد تقرَّر في القواعد أن الحکم یدور مع علتہ وجودًا وعدمًا۔ (حکم التصویر الفوتوغرافي: ۲۳) ’’فوٹوگرافی میں اعتبار ذی روح کی تصویر کے وجود کاہی کیا جائے گا، باوجودیکہ اس کے حصول