کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 18
شخصیت ہو یا حقیقی شخصیت کی ہو بہو تصویر نہ بنے، جیسا کہ ہاتھ سے بنی ہوئی تصویر اصل کے بالکلیہ مطابق نہیں ہوتی۔ ان کی نظر میں ہاتھ کی بنائی ہوئی تصویر تو انسان کی ذہنی واردات ہے جبکہ فوٹو گرافی امر واقعہ کی حکایت ہے۔ چنانچہ ایسی تصویر جو اصل خلقت کا ہی عکس ہے، اس پر حدیث میں وارد یہ الٰہی اعتراض پیدا ہی نہیں ہوگا کہ وہ اس میں روح پھونک کردکھائے، یہ مشابہت نہیں بلکہ محض حبس الظل ہے۔ شیخ ابن عثیمین کی زبانی اس کی مثال ملاحظہ فرمائیں :
والأحادیث الواردۃ إنما ہي في التصویر الذي یکون بفعل العبد ویضاہي بہ خلق اﷲ ویتبین لک ذلک جیّدًا بما لو کتبَ لَکَ شخصٌ رسالۃً فصوَّرتہا في الآلۃ الفوتوغرافیۃ فإن ہذہ الصورۃ التي تخرج لیست ہي من فعل الذي أدار الآلۃ وحرکہا فإن ہذا الذي حرّک الآلۃ ربَّما یکون لا یعرف الکتابۃ أصلاً والناس یعرفون أن ہذا کتابۃ الأول والثاني لیس لہ أي فعل فیہا ولکن إذا صُوِّر ہذا التصویر الفوتوغرافي لغرض محرم فإنہ یکون حرامًا تحریم الوسائل
’’تصویر کے بارے میں جو احادیث وارد ہوئی ہیں ، وہ بندے کے ایسے فعل کے حوالے سے ہیں جس میں وہ اللہ کی خلقت کی مشابہت کرتا ہے۔یہ بات آپ بہتر جانتے ہیں کہ اگر کوئی شخص آپ کو خط لکھ کردے اور فوٹو گرافی کے آلہ(فوٹو سٹیٹ مشین) سے آپ اس کی تصویر بنائیں تو اس سے نکلنے والی تصویر اُس شخص کا فعل نہیں کہلاتی جس نے مشین کو چلایا اور اسے حرکت دی ہے۔کیونکہ بعض اوقات فوٹو کاپی کرنے والا شخص ایسا بھی ہوتا ہے جو سرے سے لکھنا ہی نہیں جانتا۔ لوگ جانتے ہیں کہ یہ فوٹو کاپی پہلے شخص کی ہی لکھائی ہے، اور دوسرے شخص کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔البتہ جب ایسی تصویر کو کسی حرام مقصد کے لئے بنایا جائے تو پھر یہ تصویر سد ِذریعہ کے طورپر حرام قرار پائے گی۔‘‘
ایک اور مقام پر علامہ رحمہ اللہ نے احتیاطاً ایسی تصویر سے شبہ کی بنا پر گریز کا مشورہ دیا ہے۔ یعنی ان کے ہاں فتویٰ تو ایسی تصویر کے جواز کا ہے ، البتہ تقویٰ کے پہلو سے بچنا بہتر ہے۔
یہ موقف رکھنے والے گروہ پرپاکستان کے اہل علم مثلاً مولانا گوہر رحمن وغیرہ کے علاوہ عالم عرب کے متعدد علما مثلاً شیخ ابن باز، شیخ صالح فوزان اور شیخ محمد علی الصابونی وغیرہ نے کڑی تنقید کرتے ہوئے اس استدلال اور مثال کو ساقط الاعتبار قرار دیا ہے۔