کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 17
کے سہارے جدید آلاتِ تصویر کے استعمال کے لئے اصل حکم سے ہی گنجائش پیدا کرتے ہیں ۔ الغرض اس گروہِ علما کے ہاں بھی تبلیغ اسلام کے لئے ٹی وی پر آنا جائز بلکہ ضروری ہے کیونکہ ٹی وی/ ویڈیو کی صورت میں بالخصوص تصویر کی شرعی ممانعت ہی موجود نہیں ۔ نتیجہ یہاں بھی آخرکار وہی ہے کہ’’ ٹی وی پرآنے کا شریعت میں اصلاً ہی جواز ‘‘پایا جاتا ہے۔ تیسرا گروہ اس سلسلہ میں آخری گروہ بعض عرب اہل علم کا ہے جن کے ساتھ متجددین بھی شامل ہو جاتے ہیں ۔ان میں ایک طبقہ تو ان مصری علما کا ہے جو علامہ قرضاوی کی سرپرستی میں تصویر کی حرمت کو اس کے اصل الفاظ کی بنا پر صرف ہاتھ سے بنائی جانے والی تصویر تک محدود کرنے کا میلان رکھتے ہیں اور ہر قسم کی فوٹو گرافی کو اصلاً جائز قرار دیتے ہیں ۔ علامہ قرضاوی نے اپنی کتاب (الحلال والحرام في الإسلام) میں یہ موقف مصر کے ایک عالم محمدبخیت کی کتاب الجواب الشافي في إباحۃ التصویر الفوتوغرافي سے متاثر ہوکر اختیار کیا ہے۔ دیگر مصری علما میں شیخ سائس (آیات الاحکام: ۴/۶۱) او رڈاکٹر احمد شرباصی (یسئلونک في الدین والحیاۃ: ۱/۶۳۲) وغیرہ شامل ہیں ۔ علاوہ ازیں اس موقف کے بعض راسخ فکر علما بھی شکار ہوگئے ہیں ، جن میں سعودی عرب کے شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ اور کویت کے شیخ عبد الرحمن عبد الخالق وغیرہ بھی شامل ہیں ۔ ان کی نظر میں تصویر کی حرمت میں ہر قسم کی فوٹوگرافی بشمول ٹی وی ویڈیو وغیرہ سرے سے شامل ہی نہیں ہیں ۔ دوسرے گروہ سے ان کے موقف میں فرق یہ ہے کہ یہ موجودہ دور کی ہرقسم کی فوٹو گرافی کو عکس کی بنا پرمستثنیٰ سمجھتے ہیں ، جبکہ دوسرا گروہ کیمرے کی تصویر کو تو ناجائز خیال کرتا ہے لیکن ڈیجیٹل کیمرے اور ٹی وی/ ویڈیو کو جائز قرار دیتا ہے۔ مزید برآں تیسرا گروہ جدید آلات کی تصاویر کو حرام تصویر ہی نہیں سمجھتابلکہ اسے عکس قرار دیتا ہے، جبکہ دوسرے گروہ کے لوگ اس میں تصویر کے بعض اوصاف مثلاً ثبوت ودوام نہ ہونے کے سبب اُنہیں تصویر کے شرعی حکم سے خارج سمجھتے ہیں ۔ یہ اہل علم کہتے ہیں کہ مشابہت بہ خلق اللہ کا مسئلہ تو اس وقت پیدا ہوگا جب کوئی فرضی