کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 16
کہ وہاں تصویر کا وجود عکس کے بجائے مستقل بالذات ہوجاتا ہے، البتہ یہ استقلال واستقرار کاغذ کی بجائے جدید میڈیا کی شکل میں ہوتا ہے۔ چنانچہ دوام اور ثبوت کو صرف کاغذ میں منحصر سمجھنا درست نہیں ۔ تصویر کی حرمت کو اسی بات سے مشروط کرناکہ وہ کاغذ پر یا سادہ انداز میں موجود ہو ، مناسب نہیں بلکہ میڈیا کی کسی بھی صورت میں اس کا مستقل وجود، چاہے وہ کمپیوٹر ڈاٹا کی شکل میں ہو، اپنی تصویری خصوصیت وحکمت ِممانعت کے باعث قابل گرفت ہے۔ البتہ ٹی وی کی ایسی نشریات جن کو محفوظ نہیں کیا جاتا، ان کے بارے میں عکس کی اس توجیہ میں امکانِ شرک کے نہ ہونے کی حد تک تو وزن موجود ہے کیونکہ وہ مستقل بالذات قائم نہیں رہتیں ۔ ڈیجیٹل کیمرے اور ویڈیو فلم والی تصویر کو براہِ راست نہ سہی تو کم از کم سد ذریعہ کے طور پر حرام ہونا چاہئے کیونکہ ایسی تصویر میں شرک کا نکتہ آغاز بننے یا نحوست پیدا کرنے کی صلاحیت تو بہرحال بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے۔
ٹی وی، ویڈیو کے بارے میں مذکورہ بالا موقف مولانا محمد تقی عثمانی نے اختیار کیا ہے جس کی تفصیل حافظ محمد یوسف خاں کے مقالہ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ یاد رہے کہ ان کے ہاں ہاتھ سے بنائی جانے والی تصویر اور عام کیمرہ کی تصویر کی ممانعت برقرار ہے۔ البتہ جامعہ اشرفیہ، لاہور کا ٹی وی کے بارے میں فتویٰ قدرے مختلف ہے کہ آلہ لہو ولعب ہونے کی وجہ سے اس کو استعمال کرنا یا اس پر تصویر نشر کرنا درست نہیں ۔ اور مولانا برہان الدین سنبھلی نے بھی اپنی کتاب میں یہی فتویٰ دیا ہے ۔ (دیکھیں ’ موجودہ زمانہ کے مسائل کا شرعی حل‘: ص۲۰۴)
٭ اس سلسلے میں بعض علما کے لئے ایک مشکل فقہاے اَربعہ کے اقوال کی کوئی مناسب توجیہ کرنا ہے کیونکہ فقہاے اربعہ حرمت ِتصویر کے مسئلہ پر متفق ہیں ۔ چنانچہ حنفی بریلوی علما میں سے مثلاً مولانا شیخ الحدیث شیرمحمدخاں نے قرار دیا کہ جدید دور کی تصویر کو بعض قیود کے ساتھ جائز ہونا چاہئے اوراس احتمالی جواز کی گنجائش کے لئے عرف ورواج یعنی تبدیلی حالات کے تصور سے استفادہ کیا جاسکتا ہے، اسی بنا پر فقہا کے فتاویٰ میں فی زمانہ گنجائش نکالی جاسکتی ہے۔ ا س سلسلے میں اپنے خطاب میں اُنہوں نے علامہ شامی رحمہ اللہ کی ذکر کردہ بہت سی مثالیں پیش کیں ۔ بہرحال توجیہ کے اس رجحان میں کئی ایک لوگ شامل ہیں جو مختلف شبہات (عکس، ہاتھ کا استعمال )