کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 15
جائے تو جنگ ِقادسیہ میں ہاتھی کی مورتی بنانے کی غالب حکمت کے مثل اس کی بھی اجازت ہونی چاہئے۔ مزید تفصیل کے لئے مولانا کا مکمل خطاب ملاحظہ فرمائیں ۔
٭ ایسا ہی موقف ان علما کا بھی ہے جنہوں نے تصویر کی حرمت کو کاغذ پر وجود سے مشروط قرار دیا ہے۔ چنانچہ ان کے نزدیک جب تک کیمرہ کی تصویر کاغذپر شائع نہ ہوجائے، اس وقت تک وہ حرام نہیں ٹھہرتی۔ اس بنا پر وہ عام تصویر اورکیمرہ کی تصویر کو تو حرام سمجھتے ہیں لیکن ڈیجیٹل کیمرہ اور ٹی وی، ویڈیو کی تصویر میں اصلاً جواز نکالتے ہیں کہ یہ محرم تصویر ہی نہیں ہے۔
ان کے نزدیک چونکہ ٹی وی پر نشر ہونے والے پروگرام میں حفاظت یا دوام کا کوئی پہلو موجودنہیں ہوتا بلکہ وہ محض نشریاتی لہریں ہوتی ہیں ، اس بنا پر عکس اور حبس الظّل ہونے کے ناطے ٹی وی نشریات میں شریک ہونا جائز ہے اور یہ تصویر کے حکم ممانعت میں شامل نہیں بلکہ یہ محض ایک نشریاتی عکس ہے۔ علاوہ ازیں ویڈیو فلم میں بھی چونکہ ظاہری طورپر کوئی تصویر موجود نہیں ہوتی بلکہ برقی ذرّات کی شکل میں محفوظ ہوتی ہے، اس بنا پر اس کو بھی حرام قرار نہیں دیا جاسکتا۔
تبصرہ: دراصل اس موقف میں تصویر کو نفسِ تصویر کی بجائے بعض دیگر خصائص کا اعتبار کرتے ہوئے اس پر شرعی حکم لگایا جارہا ہے۔ حالانکہ اگر کوئی تصویر کاغذ پر پرنٹ کرنے کی بجائے کمپیوٹر سکرین پر ہی دیکھی جاسکے تو اس تصویر کو حرام کیوں نہیں کہا جائے گا جیسا کہ اس دورکے ڈیجیٹل کیمروں میں ایسے ہی ہوتا ہے کہ شاذونادر ہی کوئی تصویر کاغذ پر شائع کی جاتی ہے اور اکثر پردۂ سکرین تک ہی محدود رہتی ہیں جبکہ ایسی تصویر میں بھی دوام،جاذبیت اور تصویر کے دیگر خصائص بدرجہ اتم موجود ہوتے ہیں ۔
ان علما کے اس موقف کے پس پردہ عکس اورتصویر کا باہمی فرق کارفرما ہے۔ عکس اور تصویر میں بنیادی فرق یہ ہے کہ عکس کا وجود اصل پرقائم ہوتا ہے اور اصل کے ختم ہوجانے سے عکس بھی جاتا رہتا ہے۔ ان کی نظر میں جب کوئی تصویر کاغذ پر منتقل ہوجائے تو وہ عکس کی بجائے ثبوت اور دوام اختیار کرجاتی ہے، اس لئے وہ حرام ہے۔ دوام کی یہ خصوصیت اس لئے بھی ہے کیونکہ اصل پر قائم تصویرکی بقا کا کوئی امکان نہیں ہوتا، اسلئے شرک کا امکان بھی معدوم ہوجاتا ہے۔
ہماری نظر میں دوام کی یہی خصوصیت ویڈیو اور جدید ڈیجیٹل کیمرہ میں بھی پائی جاتی ہے