کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 14
ضرورت یا ایسی کوئی بھی دنیوی مصلحت ہے جس کے لوگ محتاج ہوتے ہیں ۔‘‘
مذکورہ بالا اقتباسات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب علماے کرام (بشمول علماے عرب) اصلاً تصویر کی حرمت کے قائل ہیں ، اور جدید تصاویر کو بھی اسی حرمت میں شامل سمجھتے ہیں لیکن اِضطراریا مقاصد عامہ کے تحت تبلیغ اسلام کے لئے ٹی وی پر آنے کو جائز قرار دیتے ہیں ۔
دوسرا گروہ
مسئلہ تصویر پردوسرا گروہ اُن اہل علم کا ہے جو عام تصویر کو تو حرام قرار دیتا ہے، لیکن ٹی وی اور ڈیجیٹل کیمرے کی تصویر کو ایک توجیہ کے ذریعے تصویر کے اصل حکم سے خارج سمجھتا ہے۔ گویا ان کے نزدیک جدید ترین تصاویربراہِ راست حکم شرعی میں شامل نہیں اورفرامینِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم صرف انہی تصاویر پر صادق آتا ہے جو آپ کے دور میں مروّج تھیں ۔ اس گروہ کی نمائندگی مذاکرہ میں جماعت ِاسلامی کے مولانا عبد المالک صاحب اور جامعہ اشرفیہ کے مولانا محمدیوسف خاں نے کی۔
چنانچہ مولانا عبد المالک صاحب نے مسئلہ تصویر کو ضرورت اور حاجت کے اعتبار سے تقسیم کرنے کا رجحان اختیار کیا۔ ان کی نظر میں ہر وہ تصویر جس کی حاجت ا ورضرورت نہیں ، اس کو حرام ہونا چاہئے مثلاً پورٹریٹ، بیج، خواتین کی تصویر اور تصویری نمائشیں وغیرہ۔ البتہ ایسی تصاویر جن کی کوئی دینی یا معاشرتی ضرورت موجود ہے، ان کے بارے میں خاموشی اختیار کرنا چاہئے۔ گویا وہ تصویربنانے کو توناجائز سمجھتے ہیں ، البتہ دو فقہی قواعد [1] کے سبب ان کو بقدرِ ضرورت جائز قرار دیتے ہیں ۔ یہاں تک ان کا موقف پہلے گروہ کے ساتھ ہے۔
جہاں تک ٹی وی اور ویڈیو کا تعلق ہے تو مولانا موصوف نے اس سلسلے میں یہ توجیہ اختیار کی ہے کہ چونکہ ان دونوں میں تصویر کا کوئی ظاہری وجود نہیں ہوتا، اس لئے یہ دونوں جدید ذرائع تصویر کے مروّجہ شرعی حکم سے خارج ہیں ۔ چنانچہ ٹی وی کے مسئلہ کو حرمت کی بجائے آلہ اور وسیلہ کے طور پر دیکھا جانا چاہئے اور اس آلہ/ وسیلہ کو تبلیغ دین کے لئے استعمال کرنے کی ہرممکن کوشش ہونی چاہئے۔ بالفرض ٹی وی کی حرمت کو بھی تصویر کے حکم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں داخل سمجھ لیا
[1] ’’الضرورات تبیح المحظورات‘‘ اور ’’الحاجۃ قد تُنْزَل منزلۃ الضرورۃ‘‘ وغیرہ