کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 13
ہے، مثلاً مشایخ، بڑی ہستیوں ، دوستوں وغیرہ کی تصویر کشی جس میں بتوں کے بچاری کفار کی مشابہت کے سوا کوئی دینی فائدہ حاصل نہیں ہوتا ۔‘‘
شیخ ناصر الدین البانی کا مذکورہ بالا موقف پہلے حلقے کے دوسرے علما والا ہے۔ جس میں حدیث ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی بنا پر گڑیوں کے استثنا کو دلیل بناتے ہوئے اس پر باقی ضروریاتِ دین ومعاشرہ کو قیاس کیا گیا ہے۔ البتہ درج ذیل علماے عرب نے اس حدیث کی بجائے تصویر کے شرعی احکام کو عمومی مقاصد ِشریعت کے پیش نظر اضطراراً یا اَخف الضررین یا مصلحت کے قواعد کے تحت گوارا کیا ہے … واللہ اعلم ملاحظہ فرمائیں :
٭ مفتی اعظم سعودی عرب شیخ عبدالعزیز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فجمیع الصور للذکرٰی تُتلف بالتمزیق أو بالإحراق، إنما یُحتفظ بالصور التي لہا ضرورۃ کالصورۃ في حفیظۃ النفوس وما أشبہ ذلک
’’ گزری یادوں کو محفوظ کرنے کے لئے بنائی گئی تمام تصاویر کو جلا یا پھاڑ کر تلف کردینا ضروری ہے، البتہ ایسی تصاویر جن سے کوئی شرعی ضرورت پوری ہوتی ہو ، مثلاً لوگوں (یا مجرموں ) کی شناخت وغیرہ جیسی ضرورتیں تو ان کو محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔‘‘ (فتاوی المرأۃ: ۱۵)
٭ سعودی عرب کے متبحر عالم دین شیخ ابن جبرین کا موقف بھی تصویر کی حرمت پر دوٹوک ہے، البتہ وہ بھی اضطراری صورت میں ہی تصویر کو جائز قرار دیتے ہیں :
وقد یُستثنٰی في ہذہ الأزمنۃ الأوراق النقدیۃ التي فیہا صُور المُلوک وکذا الجوازات وحفائظ النفوس للحاجۃ والضرورۃ إلی حملہا ولکن یُقتصر علی قدر الحاجۃ… واﷲ أعلم (فتاوی المرأۃ: ۱۷، ۱۸)
’’فی زمانہ کرنسی نوٹوں پر حکمرانوں کی تصاویرممانعت ِتصویر کے شرعی حکم سے مستثنیٰ ہیں ، ایسے ہی پاسپورٹ، شناختی کارڈ وغیرہ جن کی وجہ ان کو ساتھ رکھنے کی ضرورت اور تمدنی حاجت ہے (وہ بھی مستثنیٰ ہیں ) ، البتہ یاد رہے کہ ان کا جواز اسی حاجت تک ہی محدود رہے گا۔‘‘
٭ سعودی عرب کے ایک عالم محمد علی صابونی اپنی تفسیرمیں فرماتے ہیں :
بل یُقتصر فیہ علی حد الضرورۃ کإثبات الشخصیۃ وکل ما فیہ مصلحۃ دنیویۃ مما یحتاج الناس إلیہ، واﷲ أعلم (روائع البیان:۲/۴۱۶)
’’بلکہ تصویر کی اجازت کے سلسلے میں ضرورت تک ہی محدود رہا جائے گا، جیسا کہ شناختی