کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 12
مانعًا من تصویر ما فیہ فائدۃ متحققۃ بدون أن یقترن بہا ضرر ما، ولا تتیسر ہذہ الفائدۃ بطریق أصلہ مباح،مثل التصویر الذي یحتاج إلیہ الطبّ وفي الجغرافیا وفي الاستعانۃ علی اصطیاد المجرمین والتحذیر منہم ونحو ذلک فإنہ جائز بل قد یکون بعضہ واجبًا في بعض الأحیان والدلیل علی ذلک حدیثان … الخ (أحکام التصویر في الإسلام: ۶۶) ’’ اگرچہ ہم تصویر کی ہر دو نوع (تصویر بنانا اور لٹکانا) کی حرمت کے پورے وثوق سے قائل ہیں لیکن اس کے باوجود ایسی تصویر جس سے کوئی یقینی فائدہ حاصل ہوتا ہو اور اس سے کوئی شرعی ضرر لاحق نہ ہو، کو بنانے میں ہم کوئی مانع نہیں سمجھتے۔ بشرطیکہ یہ فائدہ اس جائز طریقے کے سوا حاصل ہونا ممکن نہ ہو جیسا کہ طب وجغرافیہ میں تصویر کی ضرورت پیش آتی ہے، یا مجرموں کو پکڑنے اور ان سے بچاؤ وغیرہ کے سلسلے میں ۔ تو یہ تصویریں شرعاً نہ صرف جائز بلکہ بسا اوقات واجب بھی ہوجاتی ہیں جس کی دلیل یہ دو احادیث ہیں …‘‘ پھر اُنہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اپنی گڑیوں سے کھیلنے اور حضرت ربیع رضی اللہ عنہ بنت ِمعوذ کی اس حدیث کو ذکر کیا ہے جس میں اُنہوں نے چھوٹے بچوں کو روزے کی تربیت کے دوران روئی کے کھلونے بناکردینے اور ان سے جی بہلانے کا تذکرہ کیا ہے۔ ان احادیث کی تحقیق و تخریج کے بعد نتیجہ کے طورپر مزید فرماتے ہیں : فقد دلّ ہذان الحدیثان علی جواز التصویر واقتنائہ إذا ترتبت من وراء ذلک مصلحۃ تربویۃ تُعین علی تہذیب النفس وتثقیفہا وتعلیمہا، فیلحق بذلک کل ما فیہ مصلحۃ للإسلام والمسلمین من التصویر والصور۔ ویبقی ما سوٰی ذلک علی الأصل وہو التحریم مثل صور المشایخ والعظماء والأصدقاء ونحوہا ممّا لا فائدۃ فیہ بل فیہ التشبہ بالکفار عبدۃ الأصنام… واﷲ أعلم (ایضاً:۶۷) ’’یہ دونوں احادیث جوازِ تصویر اوراستعمال پر دلیل ہیں ، بشرطیکہ اس سے ایسی کوئی تربیتی مصلحت پوری ہورہی ہے جس سے کسی فرد کے تہذیب وسلیقہ اور تعلیم میں مدد ملتی ہو۔ اس جواز سے تصویر کشی اورتصاویر کی وہ صورتیں بھی ملحق ہوجاتی ہیں جن میں اسلام یا مسلمانوں کی کوئی دینی مصلحت پائی جاتی ہو۔ البتہ اس کے ماسوا اُمور میں تصویر کی حرمت اپنی جگہ پر قائم ودائم