کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 117
’’دنیا میں شاید ایسی قومیں بہت کم ہوں گی جس میں ہندوستانی مسلمانوں سے زیادہ تعلیم کا رواج ہو، ہر وہ شخص جسے تیس روپے ماہوار کی ملازمت حاصل ہے ، عام طور پر اپنے بیٹے کو، کسی وزیراعلیٰ کے بیٹے کے برابر تعلیم دلواتا ہے، جو کچھ ہمارے لڑکے یونانی اور لاطینی زبانوں کی مدد سے سیکھتے ہیں یہاں ان کے نوجوان وہی باتیں عربی اور فارسی کی مدد سے سیکھ لیتے ہیں ۔ سات سالہ مطالعہ نصاب کے بعد یہاں کا نوجوان علم کی ان شاخوں ، گرائمر، بلاغت، منطق وغیرہ سے قریب قریب اتناہی واقف ہوجاتا ہے جتنا کہ آکسفورڈ کا کوئی تعلیم یافتہ نوجوان۔ یہ بھی سقراط، ارسطو، افلاطون، بقراط، جالینوس اور بوعلی سینا کے متعلق بڑی روانی سے گفتگو کرسکتا ہے۔‘‘ (’ہندوپاکستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت‘ از پروفیسر سید محمد سلیم: صفحہ ۱۱۸،۱۱۹) اسی طرح ولیم ہنٹر(Villiam Hunter)اپنی کتاب’ہمارے ہندوستانی مسلمان‘ میں صفحہ ۱۴۵ پر لکھتا ہے : ’’یہ حقیقت ہے کہ جب ملک ہمارے قبضے میں آیا تو مسلمان ایک ارفع اور اعلیٰ قوم تھے۔ دل و دماغ اور دست و بازو میں ہی اعلیٰ نہ تھے بلکہ سیاسی تنظیم اور عملی سیاست میں بھی برتر تھے۔‘‘ (حوالہ مندرجہ بالا، صفحہ ۱۱۷) حالیہ دور میں بھی وقتاً فوقتاً امریکی ٹیمیں بھی کچھ مدارس کا تحقیق تجزیہ کرتی رہتی ہیں اور اس کے بعد وہ یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ یہ صرف تعلیم کے ہی ادارے ہیں جہاں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ سائنس، انگریزی، ریاضی، کمپیوٹر جیسے جدید علوم بھی پڑھائے جاتے ہیں ۔ جبکہ انگریزی نظام تعلیم نے ہمیں کوئی علمی شخصیت اور کوئی محب ِوطن لیڈر نہیں دیا۔ چند ایک لوگ مثلاً سید امیر علی، علامہ اقبال، مولانا جوہر، بانی پاکستان محمد علی جناح کے سوا باقی سب اسی مرعوب زدہ ذہن کے ساتھ انگریزی کا حلیہ بگاڑتے نظر آتے ہیں ۔ اُردو اُنہیں آتی نہیں اور ہر وقت اپنے دین اور اپنے ملک کی خرابیاں اور کوتاہیاں گنوانے میں ہی مصروف رہتے ہیں ۔ آخر کار دیارِ غیر میں ہی جا لیتے ہیں ۔ آج بلا شبہ مدارس کی تعلیم میں کچھ نقائص بھی ہیں جن کو مدارس کے منتظم خود بھی تسلیم کرتے ہیں اور ان نقائص کو دور کرنے میں وہ کوشاں بھی ہیں ۔ بہت سے مدارس انگریزی ، سائنس اور کمپیوٹر کی تعلیم اپنے مدارس کے نصاب میں شامل کرچکے ہیں اور وہ اپنے طلبہ کو ساتھ ساتھ