کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 116
اسی طرح ۲۰۰۴ء میں فیڈرل بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن اسلام آباد کے میٹرک کے امتحانات میں پہلی ۱۴/ پوزیشنیں ’ادارہ علومِ اسلامی، اسلام آباد‘ کے طلبہ نے حاصل کرکے ایک نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ مگر بُرا ہو مدارس کے خلاف تعصب آلود رویہ کا، اس اہم کامیابی کے حصول پرنہ تو مدرسے پر کوئی ڈاکومینٹری فلم بنی۔ نہ کسی حکومتی ادارے نے خبر نشر کی۔ نہ ہی صحافیوں نے اس حیرت انگیز کارنامہ پراس درسگاہ کا رُخ کیا۔ ( ہفت روزہ ’ایشیا‘ ۲۱/ جولائی ۲۰۰۴ء صفحہ ۵۰ ) اس مضمون کے مصنف ابوالغوث آگے چل کر لکھتے ہیں : ’’اگر آپ باریک بینی سے جائزہ لیں تو ملک کے تمام مدارس کے طلبہ نے عصری علوم میں بہت سی پوزیشنیں لی ہیں ۔ مثلاً مدرسہ احیاء العلوم بہاولپور کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس مدرسہ کا آرٹس گروپ، بہاولپور بورڈ سے میٹرک سے گولڈ میڈل حاصل کرچکا ہے۔ اس مرتبہ بھی دس طالب علم امتحان میں شامل ہوئے۔ ۱۰۰ فیصد نتائج کے ساتھ اے گریڈ میں کامیابی حاصل کی۔ کیونکہ ان طلبہ کے نزدیک ’علم برائے علم وعمل‘ کا حصول ہوتا ہے۔ وہ علم کو عبادت اور رضاے الٰہی کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہیں جبکہ عصری علوم حاصل کرنے والے ڈگری برائے نوکری کے قائل ہوتے ہیں ۔ ہاں وہ زبان بگاڑ کر، منہ سکیڑ کر، تفاخرانہ اندا زمیں انگریزی ضرور بول سکتے ہیں ، بس یہی ان کی اہلیت ہے۔ سکول و کالج کے طلبہ مٹکنے اور تھرکنے میں مدارس کے طلبہ سے آگے ہوسکتے ہیں مگر علمی لحاظ سے وہ ان بوریا نشینوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔‘‘ (ایضاً) یہ کوئی آج کی بات نہیں جب انگریز برصغیر میں آئے تھے تو اس وقت انہی مدارس کی بدولت ملک کی ۸۴ فیصد آبادی خواندہ تھی اور تمام ملک میں مدارس کا جال بچھا تھا۔ مسلمان، ہندو اورسکھ سب ان مدارس سے فیضاب ہورہے تھے۔ تعلیم سب کے لئے اور مفت تھی نیز درسی کتب اور ضروری مصارف بھی ان کو انہی مدارس میں مہیا کئے جاتے۔ خود حکومت اور ملک بھر کے مخیر حضرات پڑھ کر نکلنے کے بعد ملک کے انتظامی اُمور سنبھالتے۔ سیاستدان بنتے، سپہ سالار بنتے، قاضی، انجینئر ، جج، حکیم اور جلیل القدر استاد بنتے۔ ان مدارس کی کیفیت کے بارے میں جنرل سٹیمن کا یہ اعتراف تاریخ کا ریکارڈ ہے۔ وہ شاندار الفاظ میں ان مدارس کو اس طرح خراجِ تحسین پیش کرتا ہے۔ وہ اُنیسویں صدی کے آغاز کا تعلیمی نقشہ پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے: