کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 115
اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے لاکھوں اپنے جیسے انسانوں کو تہ تیغ بھی کرنا پڑے تو کوئی بات نہیں بلکہ ’ہل من مزید‘کی صدا بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ عملاً آج تمام غیر مسلم قوتیں وحی الٰہی کی روشنی سے محرومی کی بنا پر امریکہ کی سرکردگی میں مسلمانوں کی لاشوں کے مینار تعمیر کرنے میں کوشاں ہیں ۔ تاکہ وہ مسلمانوں کو اپنا وفادار غلام بناسکیں اور مسلمان وحی الٰہی کی روشنی ہوتے ہوئے بھی غیروں کی نقالی کررہے ہیں ، اس لئے وہ زبوں و خوار ہورہے ہیں ۔ وہ بسنت، ویلنٹائن ڈے ، میراتھن ریس اور دیگر ہندوانہ و مغربی تقریبات منانے میں مشغول ہیں ۔ علمی نکتہ نظر سے تقابل اگر خالص علمی نکتہ نظر سے علومِ دینیہ اور دنیاوی علوم کا تقابل کیا جائے تو دینی علوم فائق نظر آئیں گے، ان میں گہرائی اور گیرائی ہے جبکہ دنیاوی علوم میں کھوکھلا پن اور سطحی پن واضح ہے: 1. قرآن پاک حفظ کرنا بڑا مشکل ہے خصوصاً اس لئے کہ زیر، زبر اعراب وغیر ہ کی کوئی غلطی نہ ہو۔ اس کے مقابلے میں ایم اے کرنا آسان ہے۔ انجینئرنگ اور ڈاکٹری میں انسان سمجھ کر اُصول و قواعد کو یاد کرلیتا ہے اور پھراپنے الفاظ میں لکھ لیتا ہے۔ مگر قرآنِ کریم میں ایک نقطہ کی کم بیشی کی بھی اجازت نہیں ، من و عن اسی طرح یاد کرنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حافظ قرآن کا حافظہ اللہ کے فضل و کرم اور قرآن کی برکت سے اتنا قوی ہوجاتا ہے کہ وہ عموماً عصری تعلیم میں ہر سطح پر دوسرے طالب علموں میں ممتاز رہتا ہے۔ علومِ دینیہ کے ماہر علوم عصریہ میں کبھی کورے نہیں رہے۔ امام رازی، امام غزالی، امام ابن تیمیہ، شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہم کی علمی گہرائی وگیرائی سے کس کو مجالِ انکار ہے۔ آج ابوالکلام آزاد، سید قطب شہید، ابوالحسن علی ندوی، ڈاکٹرحمید اللہ رحمہم اللہ وغیرہ میں سے کس کے علم سے آپ انکار کرسکتے ہیں جن کی کتابیں آج دنیا کی بڑی زبانوں میں ترجمہ ہوکر دنیا کی اہم یونیورسٹیوں میں پڑھائی جارہی ہیں ۔ علومِ دینیہ حاصل کرنے والے عام طلبہ بھی اُردو زبان خوشخطی، تحریر، تقریر وغیرہ میں عصری علوم حاصل کرنے والوں سے ممتاز ہوتے ہیں ۔ جس کی ایک نمایاں مثال ۲۰۰۴ء میں ہونے والے حکومتی طلبہ کنونشن میں جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے ایک طالب علم کی جنر ل پرویز مشرف کے سامنے کنونشن ہال میں انگریزی اور عربی میں تقریر تھی جس سے متاثر ہوکر صدر پرویز مشرف نے کہا ’’میں چاہتا ہوں کہ مدارس ایسے ہی طلبہ پیدا کریں ۔‘‘