کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 114
حدود قوانین اور تحفظ ِنسواں ایکٹ قرآن و سنت پر مبنی حدود قوانین مجریہ ۱۹۷۹ء جن کو ملکی و غیر ملکی جید علماء کرام نے پندرہ ماہ کی طویل محنت ِشاقہ کے بعد مرتب کیا تھا، کو ہمارا بے دین سیکولر طبقہ قبول نہ کرسکا۔ بالآخر ۲۰۰۶ء میں حکومت نے پارلیمنٹ میں شب خون مارکر اس کی جگہ نام نہاد ’تحفظ ِنسواں ایکٹ‘ منظور کروا لیا جس کے بعد تعلیمی اداروں میں باقاعدہ ڈانس اور موسیقی کی کلاسیں شروع کردی گئیں ۔ پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ نے مزاحمت کی تو ’الحمرا آرٹس کونسل‘ میں یہ کلاسیں جاری کردی گئیں ۔ ان کو’پرفارمنگ آرٹس ‘ کا نام دے کر باقاعدہ ایک اکیڈمی بھی قائم کی گئی۔ کراچی میں اس کا نام ہے’نیشنل پرفارمنگ آرٹس اکیڈمی‘ جس میں تین تین سال کے ڈپلومہ کورس موسیقی اور تھیٹر میں الگ الگ کروائے جارہے ہیں ، خود پرویز مشرف اس کے صدر ہیں ۔ ان اقدامات سے روزنامہ ’نوائے وقت‘ کے مطابق پوش علاقوں میں مساج سنٹروں کے نام پر فحاشی کے اڈّے کھل چکے ہیں جن میں تین سے پانچ ہزار روپے تک فی گھنٹہ وصول کئے جاتے ہیں اور فلمیں بنا کر بلیک میل کرنے کے واقعات بھی ہوچکے ہیں ۔ گاہکوں کے لئے شراب اور جنسی ادویات کا بھی اہتمام ہوتا ہے۔ شہریوں کا شدید احتجاج اور کارروائی کا مطالبہ! (روزنامہ نوائے وقت:یکم فروری ۲۰۰۸ء ) مگر سزا کون دے؟ تحفظ ِنسواں ایکٹ تو خود ان فحاشیوں کو تحفظ دے رہا ہے۔ جب کارواں کے دل سے احساسِ زیاں ہی ختم ہوجائے تو پھر یہی نتائج برآمد ہوں گے!! دینی علوم اور دنیاوی علوم کا تقابل دینی علوم تو مسلمانوں کو مقصد ِحیات سکھاتے ہیں ۔ رضاے الٰہی کے حصول کے لئے بنی نوع انسان کی خدمت کرنا سکھاتے ہیں جبکہ دنیاوی علوم ذریعہ حیات ہیں ۔ جب تک دنیاوی علوم دینی علوم کے تابع رہیں تو وہ دعوتِ دین کے لئے ایک بہت بڑی قوت ثابت ہوتے ہیں ۔ اس طرح یہ دونوں علوم مل کر مسلمانوں کے لئے دنیا و آخرت دونوں کی صلاح و فلاح کا ذریعہ بن جاتے ہیں جبکہ ’وحی کی روشنی سے محروم علم و تدبر‘ حسن اخلاق، آدمیت اور احترام آدمیت کا سبق نہیں دے سکتا۔ بلکہ وہ بنی نوع انسان کے حق میں بہت خطرناک ثابت ہوتا ہے کیونکہ وہ مادیت پرستی، لذت پرستی، خود غرضی اور ذاتی منافع کے حصول کا سبق دیتا ہے۔