کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 113
3. یوتھ ایکسچینج اینڈ سٹڈی پروگرام (سکول کے طلبہ و طالبات کو امریکہ میں ایک سال کی تعلیم دلانے کے لئے وظیفہ دینا وغیرہ اور اس قسم کے بیسیوں پروگرام مقامی طور پر بھی اس نے شروع کئے ہیں ۔ مقصد سب کا ایک ہے کہ یہ لوگ اپنے دین، تہذیب اور اقدار کوبھول کر انگریزی تہذیب اور روایات و اقدار کو اختیار کرلیں اور امریکی رنگ میں رنگے جائیں ۔ ہمارے اپنے اربابِ بست و کشاد بھی پاکستان کے تعلیمی نظام کو ناقص اور دہشت گردی پر مبنی قرار دے رہے ہیں جبکہ آغاز خان تعلیمی بورڈ اور آکسفورڈ کی وکالت میں رطب اللسان ہیں ۔ اب عصری تعلیمی اداروں کا حال سنئے: لاہور میں کم و بیش تین چوتھائی ادارے تو انگلش میڈیم ہیں ۔ دین پسندطبقہ بھی نادانوں کی طرح اَو لیول اور اے لیول کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ گویا دنیا میں اس کے علاوہ اور کوئی پڑھنے کے قابل چیز رہ ہی نہیں گئی۔ جتنے ادارے اہل درد غیروں کے عزائم کو بے نقاب کرنے کے لئے کھولتے ہیں ، پتہ چلتا ہے کہ چند سالوں بعد وہ بھی اسی رنگ میں رنگے جاتے ہیں ۔ حیرت ہے کہ خود برطانیہ میں اب اولیول اور اے لیول کا رواج ختم ہوتا جارہا ہے اور وہاں اب مذہبی ادارے تیزی سے ان کی جگہ لے رہے ہیں ۔ رہ گئے یہودی تو ان کے ہاں مذہبی تعلیم ابتدا ہی سے لازم ہے۔ جبکہ ہمارے یہاں یہ عالم ہے کہ کنیرڈ کالج کی عیسائی پرنسپل مس فیلبوس ابھی ہماری نگران وزیرتعلیم رہ کر گئی ہے اور ایف سی کالج اس وقت اسلام دشمن کاروائیوں کا بہت بڑا اڈہ بنا ہوا ہے۔ اس طرح پاکستان میں تعلیم اور نصابات کا تقریباً مکمل نظم و نسق غیروں کے ہاتھ میں ہے۔ تو پھر کہاں سے آئے صداے لاالہ الااللہ؟ میڈیا کے زیر اثر معاشرہ بھی مغربی روایات بڑی تیزی سے اپنا رہا ہے۔ اوپر سے حکومت تیزی سے ایسے اقدامات کررہی ہے کہ معاشرے سے دینی اثرات کو زائل کرسکے۔ مثلاً باجوڑ کے مدرسے کو تباہ کرنا، جامعہ حفصہ کی چار ہزار طالبات کو فاسفورس بھٹی میں جلا کربھسم کردیا گیا اسی طرح بے شمار حافظ ِقرآن طلبہ و طالبات اور دینی معلّمات کے کس طرح چیتھڑے اُڑا دیئے گئے۔ قرآن، کتب حدیث اور دینی کتب کے اوراق کی بہت زیادہ بے ادبی کی گئی کہ ان کے منتشر اوراق اب تک ندی نالوں میں رُل رہے ہیں ۔