کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 112
موسیقی توڑنے کے لئے بھیجا گیا تھا، اُمت اسی موسیقی کو ’روح کی غذا‘ قرار دے رہی ہے۔
موجودہ نصابات
ہمارے بچپن میں جب بچے کو پڑھایا جاتا تو ’الف‘ سے اللہ کے ساتھ تعلیم کا آغازہوتا۔ ابتدائی قاعدہ حمد، نعت اور اصلاحی اخلاقی کہانیوں پرمشتمل ہوتا۔ درمیان میں ایک دور آیا تو الف سے اَمرود، انار، آم وغیرہ پڑھائے جانے لگے (کہ بچے کی توجہ ابتدا سے کھانے پینے کی طرف ہی مائل رہے) اور آج کا دور آیا ہے کہ بچے کی تعلیم کا آغاز ’الف ‘سے امریکہ اور ’ب‘ سے بش ہونے لگا ہے اور نصاب میں بش (امریکہ کا صدر) کی تعریف پرمشتمل ایک انگریزی نظم بھی شامل کردی گئی ہے۔ پہلے صوفی تبسم رحمہ اللہ اور علامہ اقبال رحمہ اللہ کی خوبصورت نظمیں بچوں کو پڑھائی جاتی تھیں ۔ اب بے مغز انگریزی Songs ان کو رٹائے جاتے ہیں ۔
پہلے ابتدائی قاعدے کے جملے ہوتے تھے: ’’بچے نے سچ بولا۔‘‘، ’’ماں کاکہنا مانو۔‘‘ اب سکھایا جاتاہے: ’’ماں گارہی ہے، بچی ڈانس کررہی ہے۔‘‘
پہلے بتایا جاتا تھا: ’’پانی اللہ کی بڑی نعمت ہے، خود بھی استعمال کرو اور دوسروں کو بھی استعمال کرنے دو۔‘‘ اب بتایا جاتا ہے کہ ورلڈ بینک کو جب تک منظور نہیں ، ہم اپنے دریاؤں پرڈیم نہیں بنا سکتے۔ اپنے عوام کو بجلی، گیس مہیا نہیں کرسکتے۔ امریکی دباؤ پر اسلامی نظریات اور ملّی تشخص کو اُجاگر کرنے والے مواد کو ہمارے تدریسی نصاب سے نکالا جارہا ہے۔ موجودہ نصابات میں سے خلفاے راشدین اور مسلم مشاہیر کے ناموں اور کارناموں کو حذف کردیا گیا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں ہندومسلم مشترکہ نصابات امریکی سرکردگی میں تیار کئے جارہے ہیں تاکہ راجہ داہر جیسا لٹیرا ہمارا ’قومی ہیرو‘ قرار پائے اور غزنوی، غوری ، بابر جیسے لوگوں کوبیرونی حملہ آور اور ڈاکو لٹیرے قرا ردیا جائے۔ع آہ جاتی ہے فلک پر، رحم لانے کے لئے!
امریکہ پاکستان کے تعلیمی نظام میں زبردست مداخلت کررہا ہے۔ وہ پاکستان میں ہمارے تعلیمی نظام کو تلپٹ کرنے کے لئے آٹھ دس قسم کے پروگرام متعارف کروا رہا ہے۔مثلاً:
1. انٹرنیشنل وزیٹرلیڈر شپ پروگرام (ہرمیدان کے دانشوروں کو امریکہ کا تین ہفتہ کا دورہ کروانا)
2. کالج امپرومنٹ پروگرام (یعنی کالج طلبہ کے لئے امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے ایک سال کا وظیفہ دینا)