کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 111
اُڑایا گیا، دین اسلام کو بدنام کیا گیا۔ خصوصاً موسیقی کو ’حضرت داؤد علیہ السلام کا معجزہ‘ اور ’سنت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ‘ثابت کرنے کی مضحکہ خیز کوشش کی گئی ہے۔ حیرت ہے کہ کوئی شخص خوش الحانی سے قرآن پاک پڑھے تو اُسے کوئی سننے کو تیار نہیں مگر وہی شخص گانا شروع کردے تو اس کو ٹی وی، ریڈیو والے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں اور پھر وہ چند دنوں میں اتنا ممتاز’موسیقار‘ بن جاتا ہے کہ بقولِ بعض ’’ان کے گلے میں بھگوان بولتا ہے۔‘‘ عورت ہو تو وہ ’نورجہاں ‘ کے لقب سے نوازی جاتی ہے۔ کوئی یہاں ہدایت کار ہے تو کوئی رنگ و نور کی دنیا کو آبادکررہا ہے۔ غور کیجئے لفظ ’ہدایتکار‘ اور’نور‘ کے الفاظ پر کہ ان کی اصل کیا ہے اور یہ کس طرح غلط استعمال ہورہے ہیں ؟ اسی طرح اعتدال پسند اور روشن دین ’اسلام‘ کو دہشت گردی اور تاریک خیالی کہا جارہا ہے جبکہ اپنی خود ساختہ لغو باتوں کو اسلام کے نام پر چسپاں کرکے ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ گردانا جارہا ہے۔ ایک سٹیج پر ایک جید عالم ہو اور ساتھ ایک موسیقار ہو تو لوگ گویے اور بھانڈ کی طرف متوجہ ہوں گے اور عالم دین وہاں تنہا کھڑا رہ جائے گا۔ دیانتدار صحافی، نامور قانون دان، حاملانِ دین متین، ان کی نگاہ میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے جبکہ ان ناچوں اور گویوں اور کھلاڑیوں کے ٹی وی، ریڈیو، رسائل و اخبارات میں لمبے لمبے تذکرے اور تبصرے موجود ہوتے ہیں ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا اس گلوکار کا گفتار وکردار لوگوں کو اس کی طرف متوجہ کرتا ہے یا یہ برائی کو حاصل فطری اور فوری کشش کا نتیجہ ہے۔ نامی گرامی علماء فوت ہوتے ہیں تو اخبار میں صرف دو سطری خبر لگ جاتی ہے۔ کوئی کھلاڑی یا ناچنے والی فوت ہو تو سارے اخبارات کئی کئی دنوں تک اس کے نام کے ایڈیشن نکالتے رہتے ہیں اور ٹی وی ان کے ’ذکر ِخیر‘ کے لئے کئی دنوں تک وقف ہوجاتا ہے۔اب ہماری قوم یعنی مسلمان اپنا یہ رجحان واضح کررہے ہیں کہ یہ موسیقار ہی وہ لوگ ہیں جن سے اللہ کلام کرتا ہے۔ ان کے گلے میں رام بولتا ہے۔ نورِالٰہی انہی کے ذریعے سے دنیا میں پھیل رہا ہے۔ باقی رہے انبیا کرام و علماے کرام تو وہ ماضی کی داستانیں تھیں ۔ اب وہ گزر گئے، آج کی رنگ و نور کی دنیا میں ان کا کیا کام۔ فاعتبروا یا أولي الأبصار! افسوس! ہم میر کارواں تھے اب گردِ کارواں بن کر رہ گئے ہیں ۔ جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم آلاتِ