کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 110
ملتا۔ اب گھروں میں قرآن پاک بہ آواز بلند پڑھنے کا رواج نہیں رہا۔ نہ وہ ماں باپ کو قرآن پڑھتے ہوئے سنتے ہیں ، نہ خود ان کے پاس قرآن پڑھنے کا وقت ہوتا ہے۔ خود والدین اُن کو اتنا سخت ٹائم ٹیبل دے دیتے ہیں کہ اس کے اندر بچے کے لئے قرآنِ پاک پڑھنے کا وقت ہی نہیں ہوتا :
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صداے لا الہ الا اللہ
ہمارا میڈیا اور علما
ٹی وی، ریڈیو، اخبارات، رسائل یا تو سیاسی بیانات سے بھرے ہوتے ہیں یا پھر سپورٹس اور شوبز کی خبریں بڑی تفصیل سے دیتے ہیں ۔ کسی عالم کی سوانح عمری، ان کے کارنامے اخبارات، رسائل اور میڈیا میں جگہ حاصل نہیں کرسکتے۔ ان میں علما کا کہیں ذکر ِخیر نہیں ہوتا۔ کہیں ذکر آبھی جائے تو وہ منفی انداز کا ہوتا ہے مثلاً سانحہ لال مسجد کے معاملے میں حکومت کی اپنی کیا کیادھاندلیاں تھیں ؟ اس کو میڈیا نے بہت کم اجاگر کیا۔ مگر غازی عبدالرشید اور مولانا عبدالعزیز کو مسلسل میڈیا ٹرائل میں رکھا گیا۔ سانحہ کے واقع ہونے سے پہلے سات ماہ تک حکومت اور لال مسجد کی انتظامیہ میں مسلسل کشیدگی رہی اور سب نے لال مسجد کی انتظامیہ کو مطعون کیا۔ کسی نے حکومت کی یہ کوتاہی اُجاگر نہ کی کہ مشرف حکومت بیرونی دباؤ پر اسلام آباد، دارالخلافہ کی سات مساجد (ایک، دو، نہیں بلکہ پوری سات) مسمار کرچکی ہے اور اب وہ آٹھویں مسجد یعنی لال مسجد کو بھی گرانا چاہتی ہے۔ تو لال مسجد کی انتظامیہ نے حکومت کی اس غلطی پر احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ وہ ان ساتوں مساجد کی تعمیر کرے،کہ مسجد تو اللہ کا گھر ہے اور مسجد کو توڑ کر اس جگہ کو کسی اور مصرف میں لانا شرعاً جائز نہیں ہے۔ پھر مولانا عبدالعزیز کے ساتھ خود حکومتی لوگوں کے رابطے اور خود ان کو کس طرح برقع میں باہر بلا کر ان کی میڈیا کے ذریعے توہین کی گئی۔
اس طرح علما کی تضحیک کا سلسلہ ہمارے معاشرے میں مسلسل جاری رہتا ہے۔ فلمیں ، ڈرامے اور کہانیاں سب ایک ہی پیغام دیتے ہیں کہ دین اسلام کا نام نہ لو، وگرنہ تم دنیا بھر میں نکو بن جاؤگے۔ فلم ’خدا کے لئے‘ اس کی تازہ ترین مثال ہے جس میں شعائر ِاسلام کا مذاق