کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 11
توایسی تصاویرتو لازماً حرام ہیں ، لیکن جہاں اس سے کوئی زیادہ مفید (ضروری مقصد) پورا ہوتا ہو جس کا پورا ہونا اس تصویر کے بغیر مشکل ہے تو ایسی صورت میں تصویر جائز ہے۔اس موقف کی دلیل بچیوں کی تربیتی ضرورت کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عائشہ کو گڑیوں سے کھیلنے کی اجازت دینا ہے۔ اس بنا پر اگر مذکورہ بالا صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے تبلیغ اسلام کے لئے ٹی وی پر آیا جائے یا ویڈیو بنائی جائے تو اس صورت میں تصویر کشی وفلم بندی گوارا ہے،جیسا کہ علامہ البانی رحمہ اللہ کا یہی موقف آگے آرہا ہے۔ اس طرح بعض علما شریعت کے مقاصد ِعامہیعنی اَخف الضررین ،مصلحت اور سدذریعہ وغیرہ کے تحت اس امر کی گنجائش پیدا کرتے ہیں کہ جب حالات وظروف کے اعتبارسے تبلیغ اسلام کی مصلحت کا یہ تقاضا نظر آئے کہ ٹی وی پر آئے بغیردفاعِ اسلام اور تعبیر دین کا فرض مؤثر طریقہ سے پورا نہیں ہوسکتا تو ایسی صورت میں بھی جدید ذرائع کو استعما ل کرنے کا جواز ہے۔ گویا پہلے گروہ کے دونوں اہل علم کے موقف میں فرق یہ ہے کہ پہلا موقف اضطرار اور نئے حالات کے جبرکے نتیجے میں پیدا ہورہا ہے جبکہ دوسرے موقف میں گڑیوں کے کھیل، دیگر استثناء ات اور مقاصد ِشریعت سے استدلال کرتے ہوئے یہ گنجائش دی گئی ہے۔ پہلے موقف کی نمائندگی بالترتیب حافظ عبد العزیز علوی، حافظ صلاح الدین یوسف اور مولانا رمضان سلفی کررہے ہیں، جیسا کہ ان کے خطابات اور قراردادوں سے بھی یہی مترشح ہوتا ہے۔ ایسے ہی حالت ِاضطرار کا دوٹوک موقف مولانا ڈاکٹر سرفراز نعیمی اور مولانا رشید میاں تھانوی نے بھی اختیار کیا ہے۔ جبکہ دوسرے موقف کی طرف رجحان مولانا محمد شفیق مدنی اور حافظ عبدالرحمن مدنی کے ہاں پایا جاتا ہے۔ البتہ نتیجہ وفتویٰ ہر دو کے ہاں بہرطور یہی ہے کہ تبلیغ اسلام کے لئے ٹی وی پر آنا گوارا یا جائز ہے، اگرچہ تعلیل وتوجیہ میں دونوں کا طریقہ مختلف ہے۔ عرب علما کا موقف یوں تو یہ پہلو مذاکرہ سے خارج ہے، البتہ محض تکمیل افادہ کی خاطر یہاں عالم عرب کے مستند علما (علامہ البانی، رحمہ اللہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ ، شیخ ابن جبرین اور شیخ محمد علی الصابونی وغیرہ) کے موقف کا نتیجہ پیش کرنا بھی مفید ہوگا۔ علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وإن کنا نذہب إلی تحریم الصُّور بنوعیہ جازمین بذلک فإننا لا نرٰی