کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 109
نظامی دو سو سال تک مسلمانوں کی ہر قسم کی ضرورت کو پورا کرتا رہا۔ اس درسِ نظامی کا مرکز و محور قرآن و سنت تھے۔ وہ لوگوں کو ہر قسم کے مردانِ کار مہیا کرتا تھا۔ جن میں سیاستدان، جج، سپہ سالار، فوجی، استاد، انجینئر، طبیب شامل تھے، غرضیکہ ان کی ہر نوع کی علمی ضرورت پوری کرتا تھا مگر انگریزوں کی آمد کے ساتھ ہی مسلمانوں کو سیاست سے غیر مؤثر کردیا گیا کیونکہ ۱۸۵۷ء کی جنگ ِآزادی کے موقع پر علما نے بہت اہم اور بنیادی کردار ادا کیا تھا اور اس کے بعد بھی ہم دیکھتے ہیں کہ نظریۂ پاکستان کو مقبول بنانے اور تحریک ِپاکستان کو کامیاب بنانے میں علماے کرام کا کرداربڑا اہم تھا۔ وہ اُمورِ سیاست چلانے میں کسی سے کم نہیں رہے۔ مگر بُرا ہو اس سیکولر تعصب کا کہ پاکستانی سیاست سے ان دیندار علما کو دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے ملک میں دینی اسناد کو شروع سے ہی متنازعہ قرار دیا گیاتھا۔ مگر بڑا ظلم تو اس وقت ہوا جب پرویزمشرف حکومت نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا انتخاب لڑنے کے لئے بی اے کی ڈگری لازمی قرار دے دی اور جن علما کے پاس یہ ڈگری نہیں تھی، ان کو نااہل، ناخواندہ اور جاہلِ محض قرار دے دیا گیا۔ یہ سب کچھ دینی قوتوں کی کامیابی کو مسدود کرنے کیلئے کیا گیا۔
موجودہ الیکشن کمیشن نے واضح کردیا کہ الیکشن ۲۰۰۸ء میں دینی مدارس کی اسناد کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ لاہور ہائی کورٹ کے الیکشن ٹربیونل کے دو جج جسٹس محمد مزمل خاں اور جسٹس سردار محمد اسلم نے واضح کیا کہ ’’گزشتہ الیکشن ۲۰۰۲ء میں دینی اسناد کو تسلیم کرلیا گیا تھا مگر یہ اسی الیکشن کے ساتھ مخصوص تھا۔ اب صرف ایسے اُمیدوار انتخاب لڑنے کے اہل ہوں گے جنہوں نے دینی اسناد کے ساتھ بی اے میں انگریزی کا اور ساتھ ایک مزید مضمون کا سرکاری امتحان بھی پاس کیا ہو۔‘‘ (رپورٹ روزنامہ ’پاکستان‘ مؤرخہ ۱۳/ دسمبر ۲۰۰۷ئ) یاد رہے کہ یہ فیصلہ سنانے والے دونوں ججوں کے ناموں میں لفظ ’محمد‘ موجود ہے اور یہ جج اس اسم مبارک کی یہ عزت افزائی کررہے ہیں ۔
دینی علوم کو آج عوام نے بھی اپنی زندگی سے خارج کردیا ہے۔ علما کومیڈیا سے بھی دیس نکالا مل چکا ہے۔ بچے سکول، اکیڈمیوں ، ٹی وی، کمپیوٹر اور موبائل وغیرہ میں اتنے مصروف ہوچکے ہیں کہ پورے دن میں صرف آدھ گھنٹہ بھی اُنہیں قرآن ناظرہ تک پڑھنے کا وقت نہیں