کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 108
عوام میں ان کے کردار پر سوالیہ نشان قائم کیا جاتا ہے تو ان علما کرام کے پاس اس عزت ومنصب کے سوا اور ہے ہی کیا۔ مالی منفعت اور دنیاوی جاہ کو پہلے ہی یہ لوگ قربان کرکے اس میدان میں آگے بڑھتے ہیں ، الا ماشاء اللہ…پھر اس متاثر شدہ کردار کو دوبارہ قائم کرنے کے لئے نہ تو میدان میں کوئی تحریک موجود ہے بلکہ عالمی ادارے تو پہلے ہی یہ چاہتے ہیں کہ دین اور اہل دین سے مسلمانوں کا رشتہ کمزور سے کمزور تر ہوجائے ، تو دین اور اس سے وابستہ افراد کے مقام وکردار کو ٹھیس پہنچنا ایک ناقابل تلافی نقصان ہے جس کا کوئی مداوا ممکن نہیں ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ مغربی ممالک اپنے آپ کو سیکولر کہنے کے باوجود اپنے پادریوں کا اتنا احترام کرتے ہیں کہ ان کو ’فادر‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے، ان کو گرانقدر مشاہرے دیے جاتے ہیں ۔ خود عیسائیت کی تبلیغ کے لئے بے شمار فنڈ وقف کئے جاتے ہیں جبکہ مسلمان خود اپنے علما کا، جو انبیا کے وارث ہیں ، اس طرح مذاق اڑاتے ہیں : ہائے بیچارے مولوی! اس سے بڑھ کر ظلم یہ ہے کہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد (International Islamic University Islamabad)کے اعلیٰ تدریسی معیار کے باوجود پنجاب یونیورسٹی اس کی سند کوہی تسلیم نہیں کرتی ، ایک ہی ملک کی دو سرکاری یونیورسٹیوں کی سندات میں اس قدر تفاوت صرف اسی بنیاد پر ہے کہ ایک یونیورسٹی علوم اسلامیہ کے نام پر قائم کی گئی ہے اور دوسری کو انگریز سامراج نے سیکولر علوم کو پروان چڑھانے کے لئے قائم کیا تھا، اسی کا نتیجہ ہے کہ اسلامی یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل طلبہ و طالبات کو پنجاب یونیورسٹی سے بی اے اور ایم اے کے امتحان دینا پڑتے ہیں ۔ واضح ہو کہ علما کے لئے لفظ ’مولانا‘ احترام کے طور پر بولا جاتاہے، یعنی ہمارے سردار، دوست، قابل احترام۔ اسی طرح لفظ ’ملّا‘ بھی بڑا قابل احترام لفظ ہے۔ جس سے مراد ہے ’علم سے بھرا ہوا‘ مثلاً ملّا جامی، ملّا علی قاری، ملّا نظام الدین وغیرہ۔ مگر اب ان کو ’دو ٹکے کے مولوی‘ ، ’ہائے بیچارہ مولوی‘ کہہ کر مذاق اڑایا جاتا ہے۔ خود مسلمان اپنے علماے کرام کو ذلیل وخوار کرنے میں اہل مغرب سے کسی طرح بھی کم نہیں ہیں ۔ علماے کرام اور سیاست مسلمانوں کااصل علم تو وہی ہے جو کتاب و سنت پر مبنی ہے۔ چنانچہ برصغیر میں رائج درسِ