کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 107
مدارس سے فارغ التحصیل لوگوں کے مشاہرے اتنے قلیل کردیئے گئے کہ آج بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اندر مؤذن، خطیب اور دینی مدرسے کے اُستاد کی تنخواہ چند ہزار سے زیادہ نہیں ہے، یعنی انتہائی کم درجے کے ملازمین سے بھی کم۔
اگر کوئی شخص ادیب فاضل، منشی فاضل یا عربی فاضل کرلے تو یقینا اس کی قابلیت ایم اے (اُردو، فارسی یاعربی) سے کم نہیں بلکہ ان سے زیادہ ہی ہوتی ہے مگر بُرا ہو اس تعصب کا کہ ہمارے ہاں رائج مغربی نظام تعلیم کے مطابق جب تک یونیورسٹی سے بی اے (انگریزی) اور ایک مزید مضمون کا امتحان نہیں دیاجاتا یا یونیورسٹی سے ایم اے کا امتحان پاس نہیں کیاجاتا، اس کااجتماعی کیڈر میں مرتبہ ایم اے والوں سے کہیں کم ہوتا ہے۔ ایم اے والا تو گریڈ۱۷ میں کام کرسکتا ہے مگر اَلسنہ شرقیہ کا امتحان پاس کرنے والا دورانِ ملازمت گریڈ ۱۴ سے آگے نہیں بڑھ سکتا جبکہ درسِ نظامی والے کو باقاعدہ میٹرک، ایف اے، بی اے ، ایم اے سب کچھ امتحان دینے پڑیں گے، وگرنہ وہ صرف کسی مسجد مدرسہ میں تین چار ہزار کا مشاہرہ پانے کا حق دار ہے۔
یہ آج کی بات نہیں ،پاکستان کو بنے ساٹھ سال گزر چکے ہیں مگر دینی علوم کے حاملین اسی طرح نانِ جویں کے محتاج ہیں ۔ وہی لارڈ میکالے والا سسٹم ہی چل رہا ہے اور کسی بھی صاحب اختیار کو اس طرف توجہ دینے کی توفیق نہیں ہوئی۔ پاکستان میں بننے والی قومی تعلیمی پالیسیوں میں کسی نے اس تضاد کو ختم کرنے کی سفارش نہیں کی۔
اس پر طرہ یہ کہ گذشتہ چند سالوں کی لگاتار مہم جوئی کے بعد مسلم معاشرے میں علما اور مدارس کے کردار کے بارے میں ایسے ایسے شبہات اور سوالات پیدا کردیے گئے ہیں ، جس سے ان کے لئے معاشرے میں مؤثر کام کرنا مزید ناممکن ہوکر رہ گیا ہے، سب کو معلوم ہے کہ وزیرستان اور شمالی سرحدی علاقہ میں کس کے مفادات کی جنگ کس کے کہنے پر لڑی جارہی تھی، لیکن اس میں بلاوجہ علماء او راسلامی شعائر کو بدنام کیا جارہا ہے۔ یہاں یہ نکتہ بھی غور طلب ہے کہ اگر موجودہ حکومت عدل و قانون سے وابستہ سینئر افراد کی تضحیک شعاری کا رویہ اپناتی ہے، تو ان کے لئے وکلاء کی ایک فوج ظفر موج میدان میں احتجاج اور جلسے جلوس کرنے کے لئے موجود ہے اور دنیا بھر کا نظام بھی ان عدالتی مناصب کے تحفظ کے لئے نہ صرف ان کو ایوارڈز سے نواز رہا ہے بلکہ اس سلسلے میں حکومت کے اقدامات کو ناقدانہ نظر سے دیکھتا ہے۔ جبکہ دینی علم اور اس سے وابستہ علما کے کردار پر اگر اپنے مذموم مقاصد کے تحت کیچڑ اچھالا جاتا ہے ،