کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 10
شناعت انہی احادیث کی بنا پر فقط ذی روح اشیا تک ہی محدود ہے۔ ان وجوہ کی بنا پر ایسے علما تصویر کے مسئلے اور مصداق میں اُصولی طورپر کوئی استثنا پیدا کرنے سے کلی احتراز کرتے ہیں ۔
پہلے گروہ میں بھی آگے علما کی دو قسمیں ہیں ، بعض تو وہ ہیں جو احادیث کے ظاہری الفاظ پر انحصارکرتے ہوئے کسی تفصیل اور بحث میں جائے بغیرہر قسم کی تصویر کو حرام قرار دیتے ہیں ۔ ان علما کا رویہ حدیث کے ظاہری الفاظ پر زو ردینے کا ہے کہ ہر ایسی شے جس پر تصویر کا اطلاق کیا جاتا ہے، اس کو حرام سمجھا جائے۔ اسی بنا پر یہ اہل علم حدیث میں وارد لفظ إلا رقمًا في الثوب وغیرہ کو بھی مختلف دلائل کی بنا پر بے جان شے کی تصویر پرہی محمول کرتے ہیں ۔ البتہ حدیث میں گڑیوں وغیرہ کے استعمال کے جواز کو حکم تصویر سے مستثنیٰ کہتے ہیں ، او راس جواز کی بنیاد بھی یہی ہے کہ احادیث ِنبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ظاہری متن سے اس کی گنجائش ملتی ہے۔
اس استدلال کا منطقی نتیجہ تو یہ ہونا چاہئے کہ ان علما کے ہاں ٹی وی اور میڈیا پر تبلیغ اسلام کے لئے تصویر سازی اور فلم بندی حرام ہو لیکن مذکورہ استدلال کے بعدیہ علما بھی کسی نہ کسی درجہ میں فی زمانہ تبلیغ اسلام کے لئے ٹی وی وغیرہ پر آنے کو جائز یا گوارا ہونے کا ہی فتویٰ دیتے ہیں ، اس سلسلے میں ان کا استدلال مریض عورت کا غیرمحرم ڈاکٹر سے علاج کرانا، شناختی کارڈ اور سرکاری دستاویزات وغیرہ تیار کرنے جیسی مثالیں ہیں جن کو پورا کرنا مسلمانوں پر بطورِ اضطرار لازمی ٹھہرتا ہے۔
اسی گروہ کے دوسرے علما کا رجحان یہ ہے کہ احادیث کی ظاہری پابندی ایک نہایت قابل تعریف رویہ ہے، لیکن دین میں فقاہت کواللہ تعالیٰ نے باعث ِخیر وبرکت قرار دیا ہے۔چنانچہ صرف الفاظِ حدیث پر ڈیرہ جما دینے کی بجائے ان الفاظ کی علتوں اور حکمتوں پر غور وخوض کرنا بھی ضروری ہے۔ یہ رویہ فقہاے محدثین سے قریب تر ہے کہ حدیث کی الفاظ کی رعایت رکھتے ہوئے ان میں موجود حکمتوں تک پہنچنے کی کوشش کی جائے۔
چنانچہ غیرذی روح کی تصویر کی اجازت یا بچیوں کے کھیلنے کے لئے گڑیوں کی اجازت، یا تصویر کو پاؤں میں روندنے یا اس کا چہرہ وغیرہ ختم کردینے کے حدیثی استثناء ات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ علماے کرام قرار دیتے ہیں کہ ہر وہ تصویر جس سے کوئی مفید دینی مقصدپورا نہ ہوتا ہو