کتاب: محدث شمارہ 320 - صفحہ 8
طرف دعوت دی اور اُنہوں نے ہمیشہ دو مشکل راستوں میں سے گناہ سے پاک آسان راستہ اختیار کیا۔ اللہ نے اُنہیں تمام مخلوق کے لئے رسول بناکر بھیجا اور یہ وصف صرف آپ کی ذات کے ساتھ خاص کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ((وکان النبي یُبعث إلی قومہ خاصۃ وبُعثتُ إلی الناس عامۃ)) (صحیح بخاری:۳۳۵) ’’ہر نبی ایک خاص قوم کی طرف بھیجا گیا اور مجھے تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہے ۔‘‘ ٭ جو ابراہیم علیہ السلام کی دعا کانتیجہ ہیں جو اُنہوں نے ان الفاظ میں کی: ﴿رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ آیَاتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ﴾ (البقرۃ:۱۲۹) ’’اے ہمارے ربّ!ان لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیج جو اُنہیں تیری آیات سنائے، اُن کو کتاب وحکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے ۔‘‘ ٭ جن کی آمد کی بشارت عیسیٰ علیہ السلام نے خود دی: ﴿وَاِذْ قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْ اِسْرَائِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اﷲِ اِلَیْکُمْ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاۃِ وَمُبَشِّرٍا بِرَسُوْلٍ یَّاتِیْ مِنْ بَعِدِی اسْمُہُ اَحْمَدَ﴾ (الصف:۶) ’’اور یاد کرو عیسیٰ کی وہ بات جب اس نے کہا تھا: اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں ، اپنے سے پہلے آنے والی توراۃ کی تصدیق کرنے والاہوں اورایک رسول کی بشارت دینے والاہوں جو میرے بعد آئے گا جس کا نامِ نامی ’احمد‘ ہوگا۔‘‘ ٭ اللہ نے تمام انبیا سے یہ وعدہ لیا کہ اگر ان میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوں تو ان پر وہ ایمان لائیں گے اور سب انبیا بھی اپنی اپنی قوم سے یہ وعدہ لیتے رہے۔ ﴿وَإِذْ اَخَذَ اﷲُ مِیْثَاقَ النَّبِــِـــــیِّـیْنَ لَمَا آتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتَابٍ وَّحِکْمَۃٍ…﴾ ’’اور جب اللہ نے پیغمبروں سے وعدہ لیا کہ آج میں نے تمہیں کتاب اور حکمت ودانش سے نوازاہے، کل اگر کوئی دوسرا رسول تمہارے پاس اسی تعلیم کی تصدیق کرتا ہوا آئے جو پہلے سے تمہارے پاس موجود ہے تو تم کو اس پر ایمان لانا ہوگا اور اس کی مدد کرنی ہوگی۔ پوچھا:کیا تم اس کا اِقرار کرتے ہو؟اور میری طرف سے دی گئی ذمہ داری کو قبول کرتے ہو، تواُنہوں نے کہا ہاں ! ہم اقرار کرتے ہیں ۔‘‘