کتاب: محدث شمارہ 320 - صفحہ 63
کہ ایسی دعا نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد ہے اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے، البتہ اس کے علاوہ دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں ، کیونکہ کئی احادیث میں اس کا ذکر آیا ہے۔‘‘ (فتاویٰ اسلامیہ،ص ۳۱۸،۳۱۹) ٭ شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’نماز ختم کرتے ہی ہاتھ اُٹھا کر دعا کرنا مشروع نہیں ہے، انسان اگر دعا کرنا ہی چاہتا ہے تو نماز کے دوران دعا کرنا بعد میں دعا کرنے سے زیادہ افضل ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بروایت عبداللہ بن مسعود تشہد کا ذکر کیا اور پھر کہا:جو دعا چاہے اختیار کرے۔‘‘ (صحیح بخاری:۸۳۵) اور بعض لوگوں نے عادت سی بنا لی ہے کہ جب کبھی نفل نماز پڑھی تو فوراً دعا کے لئے ہاتھ اُٹھا لئے، اور معلوم یہ ہوتا ہے کہ دعا سرے سے کی ہی نہیں (صرف ہاتھ اُٹھائے تھے)۔ اکثر ایسا دیکھا جاتا ہے کہ انسان نفل نماز کے لئے تشہد میں ہوتاہے، ادھر نماز کے لئے اقامت ہورہی ہوتی ہے اور یہ شخص تشہد سے سلام پھیرتے ہی اپنے دونوں ہاتھ اُٹھا دیتا ہے اور پھر چہرے پر پھیر لیتا ہے اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ صرف ہاتھ اٹھانا ہی مقصود تھا تاکہ اس دعا کا التزام کیا جاسکے جو ان کے نزدیک مشروع ہے، حالانکہ وہ مشروع نہیں ہے، چنانچہ اس حرکت کو لازم رکھنا بدعت میں شمار ہوگا۔ ‘‘ (فتاویٰ ارکان الاسلام: ص۳۳۹) اُمید ہے یہ مسئلہ اب واضح ہوچکا ہوگا۔ والحمد للّٰہ الذی تتم بہ الصّٰلحٰت اسی موضوع پر محدث میں اس سے قبل تفصیلی مضمون شائع ہوچکا ہے، جس میں برصغیرکے علماے کرام بالخصوص علماے دیوبند کے فتاویٰ بھی درج کئے گئے ہیں ۔ ( دیکھیں ’ محدث‘ مئی ۲۰۰۳ء،ص۱۷)