کتاب: محدث شمارہ 320 - صفحہ 42
إن أحسن ما زُیِّن بہ المصحف،تلاوتہ بالحق (الاتقان فی علوم القرآن ۱/۴۳۲)
’’سب سے بہترین چیز جس سے مصحف کو مزین اور خوبصورت بنایا جاسکتا ہے، وہ یہ ہے کہ اس کی تلاوت کا حق ادا کیا جائے۔‘‘
البتہ قرآن کریم کو عزت و احترام کے پیش نظر چاندی سے آراستہ کرنا جائز ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے ولید بن مسلم کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ میں نے امام مالک رحمہ اللہ سے مصاحف کو چاندی سے مزین کرنے کے متعلق سوال کیا تو اُنہوں نے ایک مصحف نکال کر مجھے دکھایا اور فرمایا: مجھے میرے باپ نے میرے دادا کے حوالہ سے بتایا کہ اُنہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں قرآنِ کریم جمع کیا تھا اور مصاحف کو اس طرح چاندی سے آراستہ کیا تھا۔
جہاں تک سونے سے قرآنِ کریم کو آراستہ کرنے کا تعلق ہے تو اس سلسلہ میں صحیح بات یہ ہے کہ عورت کیلئے تو یہ جائز ہے، لیکن مرد کے لئے جائز نہیں ہے اور بعض نے یہ رائے پیش کی ہے کہ مصحف کو تو سونے سے مزین کیا جاسکتا ہے البتہ اس کے غلاف کو سونے سے مزین کرنا جائز نہیں ہے، لیکن بظاہر ان دونوں میں فرق کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔(الاتقان از سیوطی: ۱/۴۳۴)
مصاحف کا دور ِ طباعت
پریس کی ایجاد سے قبل قرآنِ کریم کے تمام نسخے قلم سے لکھے جاتے تھے۔ جب مصر اور دیگر مشرقی ممالک میں چھاپہ خانوں کا آغاز ہوا تو اُنہوں نے قرآنِ کریم کی طباعت کا خاص اہتمام کیا۔ اس سلسلہ میں باہم مقابلہ کا رجحان پیدا ہوا اور ہر ایک قرآنِ کریم کی طباعت کو ہرلحاظ سے خوبصورت اور بہتر سے بہتر بنانے کے لئے دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا تھا۔ قرآنِ کریم کے یہ نسخے مختلف شکلوں ، مختلف رنگوں اور مختلف سائز میں ہوتے تھے۔
اس سب کچھ کے باوجود یہ چھاپہ خانے قرآنِ کریم کی طباعت میں اس رسم الخط کا التزام نہیں کیا کرتے تھے جس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ، صحابہ رضی اللہ عنہم ، تابعین رحمۃ اللہ علیہم اور ائمہ مجتہدین رحمتہ اللہ علیہم کے دور میں قرآنِ کریم لکھا جاتا رہا تھا اور ان چھاپہ خانوں میں رسم کے ان قواعد و ضوابط کا لحاظ بھی نہیں کیا جاتا تھا جو سلف سے خلف تک قابلِ لحاظ سمجھے جاتے رہے تھے۔ سلف صالحین رحمۃ اللہ علیہم تواس رسم کی نمایاں خصوصیات اور حکمتوں سے آگاہ تھے، لیکن بعد میں مصری مطبع خانوں نے مصحف کی طباعت میں رسم عثمانی کاالتزام ترک کر دیا اور جدید قواعد ِاملا کا سہارا لیا، البتہ کلمات کی صرف ایک