کتاب: محدث شمارہ 320 - صفحہ 40
مصحف لکھنے والے کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ کلمات ِقرآن کواسی رسم پر لکھے جو اس روایت (قراء ت )کے مطابق ہو جس پر مصحف لکھا گیا تھا، خواہ یہ موافقت احتمالاً ہی کیوں نہ ہو، مثلاً روایت ِحفص کے مطابق مصحف کو لکھتے وقت ﴿وَسَارِعُوا﴾ یعنی واؤ کے ساتھ لکھا جائے گا۔ اسی طرح روایت ِحفص کے مطابق ﴿مٰلِکِ یَوْمِ الدِّینِ﴾ یعنی مٰلِکِ کو بغیر الف کے لکھا جائے گا۔ یہاں اس رسم کی موافقت روایت ِحفص کے ساتھ حقیقی تو نہیں البتہ احتمالاً موجود ہے۔ لیکن کلماتِ قرآن کے لئے ایسا رسم اختیار کرنا ممنوع ہے جس میں کسی روایت کے ساتھ نہ حقیقی موافقت موجود ہو اور نہ ہی احتمالی موافقت۔ نیز مصحف کے کاتب اور ناشر کو چاہئے کہ وہ اس کی کتابت اور اس کے حروف کی بناوٹ کو خوبصورت بنائے، صاف صاف اور واضح لکھنے کی بھرپور کوشش کرے اور قرآنِ کریم کے احترام اور تعظیم کے پیش نظر اسے بڑے سائز میں لکھے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ اُنہوں نے ایک شخص کے پاس ایک مصحف دیکھا جو باریک خط میں لکھا ہوا تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے ناپسند کیا اور اس آدمی کو سزا دی اور فرمایا : عَظِّمُوْا کتاب اﷲ ’’کتاب اللہ کی تعظیم کرو ۔‘‘ مصحف پر نقطوں اورحرکات کا جواز سلف صالحین کی ایک جماعت نے اسے ناپسند کیا ہے جب کہ امام مالک رحمہ اللہ کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ اُنہوں نے چھوٹے اور وہ بڑے مصاحف جو چھوٹوں کے حکم میں آتے ہیں ، ان پر نقطوں اور حرکات کو جائز قرار دیا ہے۔ لیکن اُمہات اور مکمل مصاحف پر نقطے اور حرکات لگانے کو ناپسند کیا ہے۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ اور ابن سیرین رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ مصحف پر نقطے اور حرکات لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ربیعہ بن عبدالرحمن رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ مصحف پر نقطے اور اعراب لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ نامور شافعی فقیہ اور عالم امام نووی رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’مصحف پر نقطے اور اعراب لگانا مستحب ہے، کیونکہ یہ قرآن میں لحن اور تحریف سے بچاؤ کا ذریعہ ہے۔‘‘ امام دانی رحمہ اللہ اپنی کتاب النقط میں فرماتے ہیں : ’’تابعین کرام رحمہ اللہ سے لے کر آج تک تمام بلادِ اسلامیہ کے لوگ اُمہات مصاحف اور دیگر