کتاب: محدث شمارہ 320 - صفحہ 39
کتابت کو اس قسم کی تبدیلیوں کی آزمائش سے دوچار نہ کریں ۔
3. رسم عثمانی میں تبدیلی، قرآنِ کریم کے اصل الفاظ و کلمات میں تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے، جو انتہائی خطرناک معاملہ ہے۔ نیز سد ِذریعہ شریعت ِاسلامیہ کا ایک اُصول اور ماخذ ہے جسے استنباط ِاحکام میں پیش نظر رکھا جاتا ہے اور رسم عثمانی کے بارے میں ائمہ کرام کا یہ موقف اس عظیم اُصول سے ہم آہنگ بھی ہے اور اس میں قرآنِ کریم کی حد درجہ حفاظت اور اسے ضائع ہونے سے بچانے کا بے پناہ سامان بھی موجود ہے۔
4. اس رسم کی بے شمار خصوصیات اور امتیازات ہیں جنہیں علما نے نہایت وضاحت اور تفصیل سے بیان کردیا ہے۔ اُن کی طرف رجوع مفید ہوگا۔
جہاں تک اوّل الذکر دو نوں موقفوں کی اس دلیل کا تعلق ہے کہ مصاحف کی رسم عثمانی کے مطابق کتابت شکوک و شبہات کا باعث بنے گی، وغیرہ تو یہ دلیل اس لئے ناقابل اعتبار ہے کہ اس دور میں جو مصاحف خصوصاً ایسے مصاحف جو حکومتی سرپرستی میں تیار ہوتے ہیں ، وہ مکمل اعراب سے مزین ہوتے ہیں اور لوگوں نے اسے ایسے انداز پر شائع کیا ہے کہ اس کی قراء ت میں ادنیٰ سی مشقت بھی اُٹھانا نہیں پڑتی۔
ان تمام دلائل کی بنیاد پر قرآنِ کریم کے کاتب اور ناشر کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن کی کتابت میں رسم عثمانی کے قواعد کی پابندی اور جستجو کرے۔ اور قرآن کی حفاظت اور اسے بازیچۂ اطفال بننے سے بچانے کے لئے اس کے رسم میں سے کسی قسم کی کمی بیشی یا حذف واضافہ نہ کیا جائے۔ اسی میں ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین عظام رحمہ اللہ ، ائمہ اور کبار علما کی اتباع اور اقتدا ہے۔ اور یہ پابندی مکمل مصاحف اور مصحف کے الگ الگ اجزا جو چھوٹے بچوں کی تعلیم کے لئے تیارکئے جاتے ہیں ،دونوں میں ضروری ہے۔
معلّمینِ قرآن کا فرض ہے کہ وہ بچوں کو بچپن ہی میں پوری کوشش سے ان قواعد کی تعلیم دیں اور اس سلسلہ میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھیں ، حتیٰ کہ جب وہ جوان ہو ں تو ان قواعد سے مکمل طور پر آگاہ ہوچکے ہوں ۔ قرآنِ کریم کی قراء ت ان کے لئے انتہائی آسان اور ان کی فطرتِ ثانیہ بن چکی ہو۔