کتاب: محدث شمارہ 320 - صفحہ 3
تمام تعریف اللہ تبارک و تعالیٰ کو سزاوار ہے، ہم اس کی حمد و ثنا کرتے ہیں اور اس کی مدد اور مغفرت کے طلبگار ہیں ۔ ہم اپنے نفسوں اور برے اعمال کے شر سے اس کی پناہ میں آتے ہیں ۔جس کو وہ راہ یاب کردے، اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے وہ گمراہ کردے، اسے کوئی ہدایت نہیں دیسکتا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ، وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدؐ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ اما بعد! اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوجوبلند مقام عطا فرمایا اور سارے جہاں کے لوگوں پر بزرگی بخشی اور ان کے راستے کو راہِ ہدایت قرار دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اپنے ربّ سے بخشش کی طرف دعوت دی اور اس کے عتاب سے متنبہ کیا اور ڈرایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے راستے میں اپنی تمام تر صلاحیتوں سے جہاد کا حق ادا کردیا۔ صلوات اللّٰه وسلامہ علیہ أبدًا دائمًا مسلمانوں میں باہمی احترام وحقوق ٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تنبیہ فرمائی جیسا کہ روایت میں ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ اللہ کے نزدیک سب سے محبوب عمل کون سا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((الصلاۃ علی وقتھا)) نماز کو اس کے وقت پرادا کرنا ، پوچھا: اس کے بعد؟ فرمایا: ((برالوالدین)) والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نافرمانی سے بچنے کی تلقین فرمائی کہ ((أکبرالکبائر الإشراک باللّٰه وعقوق الوالدین))(صحیح بخاری:۵۲۷، ۶۹۱۹) ’’سب سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا ہے ۔‘‘ ٭ ہمیں تعلیم دی کہ ہم مہمان اور ہمسایہ کے حقوق کا اِکرام کریں ، اسی طرح صلہ رحمی کا خیال رکھیں ، فرمایا: ((من کان یؤمن باﷲ والیوم الآخر فلیُکرم جارہ)) ’’جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے ہمسایہ کا خیال رکھے ۔‘‘ مزید فرمایا ((فلیُکرم ضیفہ)) ’’اور اپنے مہمان کا خیال رکھے۔‘‘(صحیح بخاری :۶۰۱۹) ٭ اخلاق کے بارے میں فرمایا: ((البرحسن الخلق))(صحیح مسلم:۲۵۵۳) ’’حسن اخلاق سے پیش آنانیکی ہے ۔‘‘