کتاب: محدث شمارہ 320 - صفحہ 27
والااپنی قسم میں )جھوٹا ہے۔‘‘
عصر کے بعد کے وقت کو خصوصی طور پرا س لئے بیان کیا گیا ہے، کیونکہ یہ بڑا اہم اور شرف والا وقت ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت اعمال آسمان کی طرف اٹھائے جاتے ہیں ، دن اور رات کی ڈیوٹیوں پر مامور ہونے والے فرشتوں کا اجتماع ہوتا ہے وغیرہ۔اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس وقت لڑائی کرنا اور قسمیں اُٹھانا عرب تجار کی عادت بن چکی تھی۔
5. منَّان :اس سے مراد وہ شخص ہے جو کسی کو کچھ دینے کے بعد احسان جتلاتا ہے۔ امام قرطبی رحمہ اللہ نے احسان جتلانے کی تعریف یوں کی ہے:
ذکر النعمۃ علی معنی التعدید لہا والتقریع بہا، مثل أن یقول: قد أحسنت إلیک (تفسیر قرطبی:۳/۳۰۸)
’’کسی کو جتلانے اور دھمکانے کے لیے اس پر کیے ہوئے احسان کا تذکرہ کرنا۔مثلاً یہ کہنا کہ میں نے (تیرے ساتھ فلاں نیکی کی ہے) تجھ پر فلاں احسان کیا ہے ،وغیرہ۔‘‘
بعض لوگوں نے ’احسان‘کی تعریف یوں بھی کی ہے:
التحدث بما أعطٰی حتی یبلغ ذلک المُعطٰی فیؤذیہ
’’کسی کو دی گئی چیز کا تذکرہ اسطرح کرنا کہ اس کو جب یہ بات پہنچے تو اس کیلئے تکلیف دہ ہو۔‘‘
احسان جتلانا کبیرہ گناہوں میں سے ہے جیسا کہ حضرت ابی امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لا یدخل الجنۃ عاق ولامنان ولامکذب بالقدر)) (مسند طیالسی:۱۲۱۴)
’’اللہ تعالیٰ ان بندوں کو جنت میں داخل نہیں کریں گے: 1. والدین کا نافرمان 2. احسان جتلانے والا اور 3. تقدیر کا انکار کرنے والا۔‘‘
احسان جتلانا ایک بُری صفت ہے اوربندے میں اس صفت کے پیدا ہونے کی غالب وجہ بخل، تکبر، خوش فہمی اور اللہ تعالیٰ کے کئے ہوئے احسانات کو بھول جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس چیز کو واضح فرما دیا ہے کہ ریاکاری کی طرح احسان جتلانا اور تکلیف پہنچانا بھی صدقے کو باطل کردیتا ہے۔ارشادِباری تعالیٰ ہے:﴿یَآ أَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقَاتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰی…﴾ (البقرہ:۲۶۴)