کتاب: محدث شمارہ 320 - صفحہ 17
ہورہے ہیں اور یہ انتہائی گمبھیر اورخطرناک صورتحال ہے ۔ہر مسلمان ایسی کاروائیوں کو ردّ کر چکاہے۔ آئے دن خبریں سننے کو ملتی ہیں ، جن میں معصوم جانیں دھماکوں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں ۔ یہ سراسر ظلم ہے، جس سے ہم براء ت کا اعلان کرتے ہیں ۔ اور ان کاروائیوں میں ملوث اپنے بھائیوں کو واسطہ دیتے ہیں کہ و ہ راہِ راست پر آجائیں ، جذباتی طرزِ عمل اور بیمار پراگندہ عقلیں کہیں اُنہیں ورغلا نہ لیں ۔کیونکہ وہ چاہتے ہی یہ ہیں کہ اُمت ِمسلمہ کے افراد کو ایک دوسرے کے خلاف اُبھارا جائے اور پھر یہ عناصر اسلامی دنیا میں ایسی باتیں پھیلاتے ہیں جن سے اُمت میں افراتفری اور انتشار پھیلے اوریہ قوتیں اَفراد اور گروپوں کو ان کی قیادت کی بغاوت کی ترغیب دیتے ہیں تاکہ اُمت مسلمہ داخلی طور پر ہمیشہ خلفشار کا شکار ہے ۔
میرے بھائی! ان اقدامات کا آخر کس کو فائدہ پہنچ رہا ہے ؟یقینا ہمار ا دشمن ہی اس سے فائدہ اُٹھارہا ہے اور ہم ان تمام لوگوں کے غم میں برابر کے شریک ہیں جن کو ایسے دہشت گردانہ مسائل درپیش ہیں ۔یقینا یہ بدترین مصائب ہیں جس کے علاج کے لیے ضروری ہے کہ باہم ایک دوسرے کی معاونت کی جائے اور تعاون کی تمام ترکوششوں کو یقینی بنایا جائے تاکہ اس مصیبت سے گلو خلاصی ہو۔ دہشت گردی ایک ایسا خطرناک جرثومہ ہے جس کے اثر انداز ہونے کامآل خلفشار،انتشار اور بربادی کے سوا کچھ نہیں ۔لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کی جماعتیں دہشت گردی سے جان چھڑائیں اور اس کے تدارک کے لیے آپس میں ایک دوسرے سے تعاون کریں ۔
نوجوانو! تم اپنی قوم اور علاقوں میں بربادی کے لیے استعمال کئے جانے سے بچ جاؤ ۔ذرا سوچو! اس سے کس کو فائدہ پہنچے گا؟ان کے اشاروں پر چلتے ہوئے تم ایسے ایجنٹ تلاش کرتے ہو جو اُن کے لیے خبر رسانی کا کام کر سکیں اور تم یہ کام اُن کے ہاں سرخرو ہونے کے لیے کرتے ہو۔ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ سے استقامت طلب کریں اور اللہ ہی سے ہر بھلائی کے لیے تعاون مانگیں ۔