کتاب: محدث شمارہ 320 - صفحہ 13
٭ قاتل کو ظلم و عدوان سے قتل کی وجہ سے قتل کیا جاتا ہے تاکہ انسانیت کو اطمینان حاصل ہوسکے۔ قرآن کریم میں ہے:
﴿وَلَکُمْ فِیْ الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰاُولِیْ الأَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ﴾
’’اے عقل رکھنے والو! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے۔ اُمید ہے تم اس کی خلاف ورزی سے گریز کروگے۔‘‘ (البقرۃ:۱۷۹)
مجرم پر رحم کرنے کی باتیں کرنے والے درحقیقت متاثرہ افراد کو نقصان پہنچا رہے ہیں ۔
٭ شادی شدہ زانی، زناجیسے قبیح جرم کی پاداش میں سنگساری کے ذریعے قتل کردیا جاتا ہے اور یہ اس سے پہلے کی شریعتوں میں بھی رائج تھا۔
٭ اسی طرح مرتد کی سزا بھی قتل ہے، کیونکہ وہ اپنی رضا اور اختیار سے اس دین میں داخل ہوا تھا ۔ حدیث ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((ومن بدَّل دینہ فاقتلوہ)) (صحیح بخاری:۳۰۱۷)
’’جو اپنا دین بدل دے، اسے قتل کردو۔‘‘
اور اگر یہ عقوبت ترک کردی جائے تو لوگوں کے اسلام سے روگردانی کرنے کی وجہ سے زندقہ و الحاد کا دروازہ کھل جائے گا۔نظام میں رکاوٹ ڈالنے والے اور خلیفہ کے مقابلہ میں نئی جماعت تیار کرنے والے کو اس لئے قتل کیا جائے گا کہ اس نے اس فعل کا ارتکاب کرکے فتنہ وفساد برپا کردیا۔لوگوں کے اَموال کی حفاظت کے لئے چور کے ہاتھ کاٹے جاتے ہیں ۔ اسی طرح نشہ آور اشیا استعمال کرنے والے پر اس لئے حد لگائی جاتی ہے تاکہ وہ عقل و فکر کو نقصان پہنچانے والی ان چیزوں کے استعمال کو چھوڑ دے۔
مسلمانو! کہاں ہیں وہ لوگ جو پوری دنیا پر اپنا تسلط چاہتے ہیں ۔ وہ زمین پر فتنہ و فساد کا بازار گرم رکھنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں اور ایسے قوانین اور انجمنیں تشکیل دیتے ہیں تاکہ ان کے ذریعے مجرموں کو تحفظ دیا جاسکے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿أَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَـــیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّہٖ کَمَنْ زُیِّنَ لَہُ سُوْئُ عَمَلِہٖ وَاتَّبَعُوْا اَھْوَائَھُمْ﴾ (محمد:۱۴)
’’بھلا ایسا ہو سکتا ہے کہ جو اپنے ربّ کی طرف سے صریح ہدایت پر ہو،وہ ان لوگوں کی طرح ہو