کتاب: محدث شمارہ 320 - صفحہ 11
﴿رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَّسِیْنَا اَوْ اَخْطَاْنَا﴾ (البقرۃ:۲۸۶) ’’اے ہمارے ربّ !ہم سے بھول چوک میں سرزد ہونے والی لغزشوں کا مؤاخذہ نہ کرنا۔‘‘ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إن اللّٰه تجاوز عن أمتي الخطأ والنسیان وما استُکرھوا علیہ)) ’’بے شک اللہ نے میری امت سے بھول اور مجبوری میں کیے جانے والے گناہوں کو ساقط کردیا ہے ۔‘‘ (سنن ابن ماجہ:۲۰۴۳) اللہ تعالیٰ نے ہم سے ہماری طاقت سے زائد بوجھ ہلکے کردیئے ہیں ۔ قرآن میں مؤمنین کا قول ہے: ﴿رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَا اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہُ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا، رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْنَا مَالَاطَاقَۃَ لَنَابِہٖ﴾ (البقرۃ:۲۸۶) ’’اے ہمارے ربّ!ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے۔جس بوجھ کو اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں ، وہ ہم پر نہ ڈال۔‘‘ نبی ٔرحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إن ھذا الدین یُسر ولن یشاد الدین أحد إلا غلبہ)) (صحیح بخاری :۳۹) ’’ یہ دین سہل وآسان ہے اور اس دین میں کوئی شخص بھی شدت اختیار نہیں کرتا مگر آخر یہ دین اس کو مغلوب کرلیتا ہے۔‘‘ اُمت ِمسلمہ ! اسلام پانچ ضروریات کی حفاظت کے لئے آیا ہے جن میں دین، جان، مال،عقل اور عزت شامل ہیں ۔ اگرچہ اس نصب العین کی تائید پہلی شریعتوں میں بھی موجود ہے لیکن شریعت ِاسلامی نے ایسا کامل و عادل ضابطہ حیات دیا ہے، جس میں نہ صرف ایک فرد پر ہونے والی زیادتی کا مداوا کیا گیا ہے بلکہ پورے معاشرے کو امن کا گہوارہ بنانے کے لئے اس کے اندر پورا منظم نظام موجود ہے۔ بھائیو! آج ہمارے کانوں میں مختلف آوازیں سنائی دیتی ہیں ۔ کوئی کہتا ہے کہ حدود قائم کرنا سنگدلی اور وحشیانہ عمل ہے تو کوئی ان سزاؤں کے ردّ میں حقوقِ انسانی اور انسانیت کے نعرے اَلاپتا نظر آتا ہے۔ یقینا ان نکتہ چینوں کے پاس ایک مظلوم فرد کے مداواے دکھ کی کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے اوریہ کسی ایسی صلاحیت سے بالکل تہی دامن ہیں ۔ اُنہوں نے اُمت