کتاب: محدث شمارہ 320 - صفحہ 10
((فإنہ جبریل أتاکم یعلمکم دینکم)) (صحیح مسلم:۸)
’’یہ جبرائیل تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھلانے آئے تھے ۔‘‘
ارشادِ باری ہے:﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإنْسَ إِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ﴾(الذاریات:۵۶)
’’میں نے جن وانس کو صرف اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا ہے ۔‘‘
اسی طرح ہماری عبادات میں بھی آسانی واضح ہے۔ دیکھئے! نماز کے لئے وضو شرط ہے، لیکن پانی کی عدم دستیابی کے وقت تیمم کو اس کے قائم مقام قرار دیا گیا۔ نماز کھڑے ہوکر پڑھی جاتی ہے، اگر کوئی معذور ہوتو بیٹھ کر پڑھ سکتا ہے، بیٹھنے سے عاجز ہو تو پہلو کے بل لیٹ کر پڑھ لے۔ اگر اس سے بھی قاصر ہو تو چت لیٹ کر نماز ادا کرسکتا ہے۔ اسی طرح شریعت نے سفر میں چار رکعت والی نمازوں میں قصر کی بخشش اور کسی وجہ سے نمازوں کو جمع کرنے کی رخصت عنایت فرمائی۔
مسلمان بھائیو!شریعت نے ہمارے معاملات میں بھی آسانیاں مرحمت فرمائی ہیں ۔ اکثر چیزیں ہمارے لئے مباح کردیں :
﴿وَسَخَّرَلَکُمْ مَا فِیْ السَّمٰوَاتِ وَمَا فِیْ الاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْہُ﴾ (الجاثیہ:۱۳)
’’اور اس (اللہ) نے تمہارے لیے آسمانوں اور زمین کی تمام چیزوں کو مسخر کردیا ہے ۔‘‘
معاملات میں ہمارے لئے حلت کو اصل قرار دیا جبکہ ظلم، دھوکہ اور جہالت کو حرام ٹھہرایا۔ یقینا شریعت ِاسلام، اگر کوئی غور کرے، آسانیاں بہم پہنچانے والی شریعت ہے اور اللہ کا منشا بھی یہی ہے کہ ہم ا س کی دی ہوئی رخصتوں کو قبول کریں ۔ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
((إن اللّٰه یحب أن یؤتی رُخَصہ کما یَکرہ أن تؤتی معصیتہ)) (صحیح ابن حبان:۲۷۴۲)
’’اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند ہے کہ اس کی عطا کردہ رخصتوں سے فائدہ اٹھایا جائے جس طرح اسے یہ امر انتہائی ناپسند ہے کہ اس کی معصیت سے اجتناب کیا جائے۔‘‘
اور یہی وجہ ہے کہ معذور اور بھولنے والے پر گناہ ساقط کردیا گیا ہے۔ اور مؤمنین کی دعا کو اللہ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے: