کتاب: محدث شمارہ 32 - صفحہ 9
غشاوۃ اس سے مراد وہ کھوپا اور پردہ ہے جو صرف آنکھوں پر پڑ جاتا ہے۔ یہ پردہ دل کے کھوپے اور پردے کا مظہر، نتیجہ اور عکس ہوتا ہے۔ پہلے دل پر اس کی سلطانی ہوتی ہے پھر اس کی وساطت سے آنکھ اسی رنگ میں رنگی جاتی ہے، کوتاہ بینی، کج بینی، کور چشمی سبھی اس کے مختلف انواع اور اسماء ہیں۔ یہ غشاوہ اپنے تحت کو پوری جامعیت کے ساتھ ڈھانپ لیتا ہے۔ یہاں تک کہ ’دلِ کج‘ کی ہر کج ادا کے نظارہ میں آنکھ محو رہتی ہے لیکن جو ’حقائق‘ بے پردہ ان کی آنکھوں کے سامنے ہوتے ہیں وہ اسے دکھائی ہی نہیں دیتے۔ رین، رأن ران سے مراد زنگ ہے یعنی گناہوں کا، اگر اسے دھویا نہ جائے تو جس طرح لوہے کو زنگ کھا جاتا ہے، اسی طرح گناہوں کا زنگ بالآخر مجلّی اور مصفا دل کو کھاجاتا ہے یعنی گناہ یوں محیط ہو جائیں کہ اس کے دل سے احساسِ زیاں بھی جاتا رہے۔ رینؔ، کثرتِ گناہ سے دل سیاہ ہو جانے کا نام ہے۔ طبع اس پر ٹھپہ لگانے کو کہتے ہیں جو رینؔ سے سخت ترین ہے اور اقفال، طبع سے بھی سخت ہے کہ اس سے دل مقفل ہو جاتے ہیں یعنی سیل ہو جاتے ہیں۔ غین غین بھی رین ہی ہے لیکن اس کا زنگ اس سے لطیف ہوتا ہے۔ یہ زنگ عموماً ادیبوں کے گناہوں اور دین پسند خوش فہموں کی خود فریبیوں کا حاصل ہوتا ہے یا صلحاء پر ایک انقباضی سی کیفیت ہے جو محض بشری اور ملکوتی ملکات کے درمیان کراسنگ کا نتیجہ ہوتی ہے مگر استغفار اور پیہم اعمالِ صالحہ کی بنا پر مغلوب رہتی ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے: وانه ليغان علٰي قلبي واني لاستغفر اللّٰه في اليوم مائة مرة (مشكوٰة) الغرض رین ایک سیاہ کاری اور سیاہ فہمی ہے جس سے دل کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ حیوانی دل تو سلامت رہتا ہے لیکن وہ دل مر جاتا ہے جس کے قریب رب کا بسیرا ممکن ہوتا ہے (نحن اقرب اليه من حبل الوريد) الغلّ اس کی جمع اغلال ہے۔ اس کے اصل معنے کسی چیز کو اوپر اوڑھنے یا اس کے درمیان میں چلنے جانے کے ہیں جو پانی درختوں کے درمیان میں بہہ رہا ہے، اسے بھی غلل کہتے ہیں اور اس طوق کو بھی ’’غل‘‘ کہتے