کتاب: محدث شمارہ 32 - صفحہ 8
کی تہ میں چلا جاتا ہے جن سے علیحدہ ہو کر اس کے لئے ’حق‘ کو سوچنا اور سمجھنا ممکن نہیں رہتا۔
غطاء
اس سے مراد ’سرپوش‘ ہے جیسے ڈھکنا وغیرہ۔ اس کے دو معنے ہیں ایک یہ کہ آنکھوں پر ’کھوپے‘ (یاپٹی کہہ لیجئے)چڑھے ہیں۔ اس لئے وہ قدرت کی نشانیوں اور آثارِ توحید کے دیکھنے سے قاصر رہتا ہے۔
دوسرا یہ کہ ان کے دلوں کی آنکھوں پر کھوپے چڑھے ہیں کہ اب وہ قرآن میں تدبر، تفکر، فہم اور کسبِ فیض کے قابل نہیں رہے۔ پہلے دل کی آنکھوں پر کھوپہ چڑھتا ہے پھر سر کی آنکھوں پر بھی چھا جاتا ہے۔
دل کے کھوپے کا نام ’اکنّہ‘، کان کے کھوپے کا نام ’دقر‘ اور آنکھ کے کھوپے کا نام ’حجاب‘ ہے۔
غلاف
غلاف کے ایک معنے ہیں کہ ہمارے دل خود علوم و معارف کے خزانے ہیں، ہمیں آپ کے علم و معارف کی ضرورت نہیں یعنی وہ اپنی عقل و فہم پر غرہ تھے۔ دوسرے کی بات خواہ وہ حق ہی ہو، سننے کو اپنی کسر شان تصور کرتے تھے۔
دوسرے یہ کہ ہمارے دل غلافوں میں بند ہیں۔ اب ’اکنہ‘ اور ’غلاف‘ ہم معنے ہوں گے۔ بہرحال کوئی صورت ہو، دونوں کا حاصل یہ ہے کہ وہ قرآن میں غور و تدبر کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
کفار کا کہنا یہ تھا کہ ہماری ہدایت خدا کو ہی منظور نہیں، ہمارا اس میں کیا قصور ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ غلاف کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ غلاف خود ان کے کفر و جحود کا نتیجہ ہے۔ بَلْ لَّعَنَھُمُ اللّٰہُ بِکُفْرِھِمْ
حجاب
حجاب سے مراد ‘حائل اور مانع‘ ہے وہ مادی ہو یا معنوی۔ یہاں اس سے مراد وہ کیفیت ہے جو کفار کے دلوں اور فہم قرآن کے درمیان حائل اور مانع رہتی ہے۔
حجابؔ رویتِ حق سے مانع ہے۔ اکنہ فہمِ قرآن میں حائل اور وقر سماعِ حق سے مانع کیفیت کا نام ہے۔
وقر
وقر کان کے ثقل، بھاری پن اور بہرے پن کو کہتے ہیں جس طرح ’وسق‘ اونٹ کے بوجھ کو کہتے ہیں۔ اسی طرح ’وقر‘ دھے کے بوجھ کا نام بھی ہے۔
کان کا یہ ’وقر‘ انسان کو حق سننے کا اہل نہیں رہنے دیتا۔ قرآن حکیم نے آوازِ حق سے ان کے بدکنے کو کَاَنَّھُمْ حُمُرٌ مُّسْتَنْفِرَۃٌ گویا وہ گدھے ہیں جو بدکتے ہیں، سے تعبیر کیا ہے۔
یہ ’ثقل اور بوجھ‘ جھوٹے وقار، سیاسی مصلحت اور منفعتِ عاجلہ کے شغف کا عموماً نتیجہ ہوتا ہے۔