کتاب: محدث شمارہ 32 - صفحہ 7
عزیز زبیدی واربرٹن۔ قسط (۵) التفسیر والتعبیر گو ان سب کا حاصل ایک جیسا ہے، تاہم ان میں ایک گونہ تنوع بھی پایا جاتا ہے۔ اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ مختصراً اس کا بھی ذکر ہو جائے تو قلب و نگاہ‘ پر مہر اور پردے والی بات بھی مزید واضح ہو جائے زیادہ یہ تفصیل حضرت امام ابن القیم رحمہ اللہ (ف۷۵۱ھ)کی کتاب ’شفاء العلیل فی مسائل القضاء والقدر و الحکمۃ والتعلیل‘ (ص ۹۲ تا ص ۱۰۷)سے ماخوذ ہے اور کچھ ’مفرداتِ راغب‘ سے۔ ان کے علاوہ اگر کوئی اور کتاب ہو گی تو اس کا حوالہ ضرور دیا جائے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ، ہاں یہ سبھی کچھ بطور حاصل اور تلخیص کے ہو گا۔ من و عن ترجمہ نہیں ہو گا۔ کیونکہ یہاں اس کی اتنی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن تشریحی اور توضیحی پہلو نمایاں ہو گا۔ ۱۔ ان میں سے بعض کا تعلق براہِ راست دل سے ہے جیسے ختم، طبع، قفل وغیرہ ۲۔ بعض وہ ہیں، جو دل تک رسائی کا واسطہ اور ذریعہ ہیں جیسے صمم اور وقر۔ ۳۔ کچھ وہ ہیں جو اس سلسلے کے مقدمات کی طرف رجوع کرتے ہیں جیسے عمی اور غشاوہ۔ ۴۔ اور کچھ وہ ہیں جن کا تعلق دل کے ترجمان اور قاصد سے ہے۔ جیسے بکم نطقی۔ ۵۔ ہاں یہ یاد رہے، یہ سب حقائق ہیں مجاز اور استعارے نہیں ہیں کیونکہ بات موقع محل کی ہے، جس محل پر جو بات کہی گئی ہے، اس کی وہی حقیقت ہے۔ دراصل یہ نظریہ شیخین (ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ابن قیم رحمہ اللہ )کا خاص نظریہ ہے، کیونکہ وہ قرآن میں مجاز کے قائل نہیں ہیں۔ ختم اور طبع: ڈھانپ لینا اور یوں چھا جانا کہ باہر سے کوئی شے اندر داخل نہ ہونے پائے ’ختم اور طبع‘ ہے۔ لیکن اس فرق کے ساتھ کہ اگر یہ صفت فطرتِ ثانیہ بن جائے تو اسے ’طبع‘ کہتے ہیں۔ گویا کہ بہیمیت اور نفسانی خواہشات اور بعض مصالحِ عاجلہ یوں چھا جاتے ہیں کہ ان کو چاک کر کے حق کا ان کے قلب میں داخل ہونا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اَکِنّہ: اس سے وہ ترکش اور غلاف مراد ہیں جن کی لپیٹ میں دل آجاتے ہیں۔ یعنی دل ان اغراض