کتاب: محدث شمارہ 32 - صفحہ 5
اسلامی سربراہی کانفرنس
پورا عالمِ اسلام، فوجی اہمیت کا علاقہ۔ مالی وسائل کے اعتبار سے سونے کی چڑیا اور روحانی لحاظ سے عظیم انبیاء، صحابہ، صلحاء اور اتقیاء کا مسکن ہے۔ مگر افسوس! مدتوں سے اب یہ صرف ’چڑیا‘ ہو کر رہ گیا ہے۔
فوجی اہمیت کا علاقہ ہونے کے باوجود مجاہدانہ اسلامی اسپرٹ، کیریکٹر اور عشق سے تہی دامنی اسے کھا گئی ہے۔ ملی انتشار، ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی جداگانہ ریاستوں کی تخلیق، ملت فروش حکمرانوں کا غلبہ اسلامی مستقبل سے بے نیاز اور لیلائے اقتدار کے مجنونوں کے تسلط اور غیر وفاقی ذہن کے افراد کے غلبہ نے ہمیں اور ذلیل کیا۔
اس کا مداوا یہ ہے کہ:
اسلامی اقدار زندگی اور نبوی طرز ریاست کے احیاء کی مخلصانہ کوشش کی جائے اور عالمِ اسلام کی چھوٹی چھوٹی سبھی ریاستوں کو ایک ایسے ’وفاقی نظام‘ میں منسلک کیا جائے جس میں ان کے جداگانہ تشخص کے باوجود ’سیاسی حکمت عملی‘ ملی وحدت کے تابع ہو۔
جدید اسلحہ کے معاملے میں خود کفیل ہونے کے لئے ضروری ہے کہ اپنے وسائل کو یکجا کیا جائے اور اسلحہ سازی کے لئے مختلف ریاستوں میں اسلحہ ساز فیکٹریاں قائم کی جائیں اور اپنے اپنے حصص اور ضرورت کے مطابق ممبر ملکوں میں ان کو تقسیم کیا جائے۔ لیکن موقع و محل کے لحاظ سے ایک دوسرے کے لئے حاصل کرنا آسان ہو۔ دفاع کے معاملہ میں یکسانیت پیدا کی جائے اور اس کو اتنے طاقت ور بلاک کی شکل دی جائے جسے عہدِ حاضر کی عظیم طاقتوں کے لئے نظر انداز کرنا آسان نہ ہو۔ اگر مسلم چاہیں تو یہ بات کچھ زیادہ دشوار بھی نہیں ہے۔
عالمِ اسلام کی اپنی وفاقی عدالت یا یو۔ این۔ او ہو جہاں ان کے باہمی جھگڑوں کا تصفیہ کیا جا سکے اور جس کی طرف ہمارے لئے رجوع کرنا آسان ہو۔
خارجہ پالیسی اپنے ’وفاقی ادارہ‘ کی معرفت متعین کی جائے جس کی عالم اسلام کی سب ریاستیں سختی سے پابندی کریں۔ اور اسی وفاقی ادارہ سے آزاد یا باغی ہو کر کوئی ریاست غیر ممالک سے روابط استوار کرنے کی مجاز نہ ہو۔ اور کوشش کی جائے کہ ہر سال اسی وفاقی ادارہ کا چیئرمین باری باری ممبر ملکوں سے منتخب کیا جائے۔